English   /   Kannada   /   Nawayathi

نئی نسل کے جنسی مسائل توجہہ کے طلب گار

share with us

اہر ہے جب یہ ایک فطری تقاضہ ہے تو پھر اس سے متعلق کئی مسائل بھی پائے جاتے ہوں گے۔ لیکن ہندوستان میں عموماً اور مسلمانوں میں بطور خاص اس فطری تقاضہ سے متعلق مسائل کو نظر اندازکیا جاتا ہے یا رازداری برتی جاتی ہے۔ جنسی مسائل پر گفتگواور جنسی تعلیمات کے حصول کواس قدر معیوب اور بے حیائی تصور کر لیا گیاہے کہ اس مسئلہ کا شکار کسی شخص کو اپنے لئے کوئی ہمدرد اور غمگسار تلاش کرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔
در اصل اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے ایک دوست ہیں جو میڈیکل اسٹور چلاتے ہیں، کئی دفعہ ملاقاتوں میں انہوں نے بڑے کرب کے ساتھ اپنی تشویش کا اظہار کیا اوراس خواہش کا اظہار کیا کہ معاشرے کے اس سنگین مسئلہ پر بھی کچھ لکھا جائے۔ انہیں تشویش اس بات پر ہے کہ اُن کی دکان پر ۱۸ سے ۳۰ سال کی عمر کے بہت سارے نوجوان اپنے جنسی مسائل سے پریشان ہو کرآتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کا تشفی بخش علاج ہو جائے۔ان میں شادی شدہ اورکنوارے دونوں قسم کے نوجوان شامل ہیں۔ حالانکہ اس عمر کے نوجوانوں کو اس قسم کے مسائل پیش نہیں آبا چاہیے۔ہمارے دوست کوئی ماہر ڈاکٹر تو ہیں نہیں کہ بیماری کی صحیح تشخیص کریں اور مکمل علاج کر سکیں۔، اپنی سمجھ کے مطابق کچھ دوائیں دے بھی دیں تو مسئلہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ تشویش اس بات پر بھی ہے کہ اگر ایک دکان پر اتنے نوجوان رجوع ہوتے ہیں تو شہر میں سینکڑوں دکانیں ہیں، وہاں آنے والے نوجوانوں کی مجموعی تعداد کتنی ہوگی؟یعنی پوری ایک نسل اس بیماری میں مبتلاء ہے لیکن ہمارے بزرگ اور والدین اس سے واقف ہی نہیں ہیں۔ شہر میں بہت سے ماہرین جنسیات موجود ہیں لیکن ان سے رجوع کرنے میں شرم اور جھجک مانع آتی ہے، یہ خیال بھی رہتا ہے کہ اس سے بات پھیل جائے گی اور اپنی کمزوری اوروں پر ظاہر ہو جائے گی اس خیال کے تحت اکثر نوجوان کسی ماہر سے رجوع کرنے کی بجائے یا تو غیر معتبراشتہاری دواؤں کا سہارا لیتے ہیں یا پھر اندر ہی اندر گھُٹ کر رہ جاتے ہیں اور اپنی ازدواجی زندگی کو تباہ کر لیتے ہیں۔
عام مشاہدہ یہ ہے کہ سن بلوغت کو پہنچنے والی دوشیزاؤں کو گھر کی بڑی بوڑھی خواتین رہنمائی کر دیتی ہیں لیکن نوجوانوں میں اس کی ضرورت کو کوئی محسوس ہی نہیں کرتا۔ چنانچہ لڑکے جب بالغ ہوتے ہیں تو ایک ذہنی کشمکش میں مبتلاء ہو تے ہیں وہ نئی صورت حال سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل خود ہی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کو اچھے اور برے کی تمیز سکھائی جائے، اپنے جذبات اور احساسات کو صحیح سمت دینے کیطرف رہنمائی کی جائے۔ لیکن اس کا کوئی نظم ہمارے سماج میں نہیں ہے۔ حجاب کی ایک دبیز چادر انہیں اپنے بزرگوں سے اس تعلق سے بات کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ایسے میں اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ نوجوان کچھ غلط کاریوں یا ہم جنسی کی طرف مائل ہوجائیں۔ اسکولی نصاب میں جنسی تعلیمات کو شامل کرنے کی ہر کوشش پر ہم چراغ پا ہو جاتے ہیں ، لیکن نوجوانوں کے اس سنگین مسئلہ پر اس وقت تک ہمارا دھیان نہیں جاتا جب تک کچھ انفرادی واقعات ہمارے علم میں نہیں آجاتے۔ اسے بھی ہم انفرادی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔لیکن اگر یہ معاملہ کچھ نوجوانوں کی حد تک محدود نہ ہو کر عام بات ہوجائے تب تو ہمیں اس کی فکر کرنی ہی چاہیے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے صدیوں سے ہمارے سماج کا رویہ یہی رہا ہے پھر آج اس کی اہمیت اتنی کیوں بڑھ گئی ہے؟دراصل مغربی تہذیب، عریانیت، فحاشی، فلموں اور میگزینوں نے بہت پہلے ہی نوجوانوں کے اخلاقیات کو زیر کرلیا تھا لیکن موجودہ زمانے میں خواتین کی بے حیائی، نئی نئی ایجادات، ٹی وی،موبائیل اور انٹر نیٹ نے اس ماحول کو مکدر کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔اب تو با پردہ خواتین بھی جدید فیشن کے برقعوں میں ملبوس ہو کر بھی عریاں نظر آتیں ہیں۔ فحاشی اور عریانیت اتنی عام ہو گئی ہے کہ کم سن نوجوان بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔پہلے انٹرنیٹ تک رسائی اتنی عام نہیں تھی، اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ موبائیل فون میں بھی وہ تمام لغویات در آئیں ہیں جس سے پوری نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔فحش فلم بینی کے نتیجہ میں جو ہیجان پیدا ہوتا ہے وہ ایک عام شریف النفس سیدھے سادے نوجوان کو بھی ورغلانے کے لئے کافی ہے۔ اور بار بار کی یہ ہیجان انگیزی نو جوان کو نفسیاتی مریض بنانے کی ذمہ دار بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے نوجوانوں کی بر وقت جنسی رہنمائی شائد آج وقت کی ضرورت ہو گئی ہے۔ اس طرف ہم سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
اس سلسلہ میں والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد پر نظر رکھیں، ان کے رویہ میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کریں اور حسب ضرورت کوالیفائیڈ ڈاکٹرس، ماہر جنسیات، ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی تامل نہ کریں۔ نوجوانوں کو اشتہاری ڈاکٹرس اور دواؤں کے سہارے مت چھوڑئیے۔ بچے جب بالغ ہوجائیں تو ان سے پدرانہ شفقت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کریں،وقفہ وقفہ سے ان کی رہنمائی کریں، بہتر ہوگا کہ کسی بھی مسئلہ پر فوری اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پراس بات کی تسلی کرلیں کہ لڑکا کسی ذہنی ، نفسیاتی، یا جنسی مسئلہ کا شکار تو نہیں ہے۔ بعض مرتبہ اچھے صحت مند نظر آنے والے نوجوان بھی نا اہل ہو سکتے ہیں یا پھر غیر فطری طریقے اپناکر مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔ آج کل خلع کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے ایک بڑی وجہہ یہی جنسی نا آسودگی یا بے راہروی بھی ہے ، لیکن اس وقت بھی ہم اس بات کو نظر انداز کرکے دیگر وجوہات پر ہی دھیان دیتے ہیں۔ حقیقت حال کو قبول کرکے اصل مسئلہ کا علاج کروانے کے بجائے فریقین ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں۔کیونکہ شرم و حیا کی وجہہ سے اصل مسئلہ سامنے آتا ہی نہیں۔ اکثر اوقات بات خلع پر جاکر ختم ہوتی ہے، لیکن جہاں لڑکیاں غریبی کی وجہہ سے یا گھر کی عزت بچانے کے لئے خلع لینے کی ہمت نہیں کر پاتیں وہاں اس سے زیادہ سنگین سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔فیملی کورٹ میں جاری مقدمات کی تھوڑی سی جانکاری لیں تو بات بہت واضح ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹرس ، خصوصاً فیملی ڈاکٹرس ، ماہر نفسیات اس سلسلہ میں بہت کار آمد ہو سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ ان سے بر وقت رجوع کیا جائے اور اصل مسئلہ سے انہیں بے جھجک آگاہ کیا جائے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ اپنی نظروں کی حفاظت کو ضروری جانیں، اپنے آس پاس کے ماحول میں جو عریانیت پھیلی ہوئی ہے اس سے خود اپنی حفاظت کریں، عریانی اور فحاشی کے مناظر اور فحش فلموں سے بالکل دور رہیں، اپنے قلب کو پاک و صاف رکھیں۔اس کے بعد بھی اگر خد نخواستہ کوئی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کو ہرگز بُر انہ سمجھیں۔ صحت سے متعلق کسی بھی غیر معمولی بات کو نظر انداز نہ کریں۔ جنسی خواہش کا پیدا نہ ہونا یا غیر فعال ہونا اگر بیماری ہے تو معمول سے زیادہ شہوانی خواہشات بھی ایک بیماری ہے اس کا بھی علاج کروانا ضروری ہے۔یاد رکھیے آپ صرف ایک نوجوان نہیں ہیں جو اپنی جوانی جیسے چاہے گزار لیں بلکہ آپ کو اس کا حساب آخرت میں بھی دینا ہے اور دنیا میں بھی آپ سے ایک نسل چلنی ہے۔اپنی جوانی کا صحیح استعمال کیجیے اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کیجیے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ 
؂لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا