English   /   Kannada   /   Nawayathi

اویسی صاحب معاملہ صرف سیاست کانہیں قوم کی تقدیر کا ہے

share with us

ظر اٹھاکر دیکھئے کہ ایک طرف جہاں الیکشن کا نوٹیفیکیشن جاری ہو نے کے ساتھ ہی بہار کی سیاست اپنے نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور تقریبا تمام ہی چھوٹے بڑے اور نئے پرانے سیاسی نمائندے امید کی ٹوپی اپنے سر پر لگائے اپنے مشن میں اس طرح مصروف ہیں جیسے کسی نے ان کے کان میں آکر ا ن کوکامیابی کی بشارت دے دی ہو ، وہیں دوسری طرف ریاست کے مسلمان تمام تر بدلتے حالات سے اپنی آنکھیں موند کر بس تماشائی کا رول ادا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اور وہ بھی شاید اس لئے کہ اگرچہ مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی کا دم بھر نے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن انہیں سیاسی گہماگہمی کے اس ماحول میں ایسا کوئی رہنماء دور دور تک نظر نہیں آتا جن کی ایک آواز مسلم قوم کی زندگی کا رخ بدل دے یا جس کے مشورے کو عوام کی اکثریت اپنے لئے حکم کا درجہ مانتی ہو ، حالانکہ مسلمانوں کو چھوڑ کر تقریبا علاقہ کی تمام قوموں نے ٹوٹے پھوٹے معاہدے کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک اپنی حکمت عملی طے کر لی ہے اور انہوں نے اپنے لئے ایسے رخ اپنانے کا ماحول پیدا کر دیا ہے جس سیان کے کامیاب مستقبل کی امید روشن ہو سکے ،مت بھولئے کہ میں بات اس مسلم قوم کی کر رہا ہوں جس کے رعب وہیبت سے کسی زمانے میں یہاں کی سیاسی جماعتوں کے ہوش اڑ جایا کرتے تھے ،اور جن سے آنکھیں لڑانا نہ صرف جرم کی حیثیت رکھتا تھا بلکہ ان کے ایک اشارے سیاست کارخ بدلنے کے لئے کافی ہوتے تھے ،مگر آج حالت یہ ہے کہ سیاسی حصہ داری کے اس دور میں تمام تر پارٹیاں ان کو اس طرح نظر انداز کر رہی ہیں جیسے ان کا اپنا کو ئی سیاسی وجود ہی نہیں ہیں ،عجیب بات تو یہ ہے کہ اس پالیسی میں صرف وہ جماعتیں ہی پیش پیش نہیں ہیں جو مسلمانوں سے نفرت رکھتی ہیں یا جن کو مسلمانوں کے مفادات سے کچھ لینا دینا نہیں ہو تا بلکہ وہ پارٹیاں بھی اپنے مشکوک کردار کے ساتھ میدان عمل میں ہیں جن کو شاید بولنا چلنا اور سیاست کا ڈھنگ مسلمانوں نے ہی سکھایا ہے بلکہ اگر یہ کہ دیا جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہو نا چاہئے کہ آج اگر یہ پارٹیاں زندہ ہیں تو یہ ان ہی مسلمانوں کی کرم فر مائی کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے ایماندارانہ خون سے ان کو سینچا ہے ،لیکن کیا کیجئے خود اپنی کمزوریوں اور خانہ جنگیوں نے مسلم قوم کو ایسے موڑپر لا کھڑا کر دیا ہے جس پر جتنا سر پیٹا جائے کم ہے ،آج یوں تو ہر کوئی خود کو مسلمانوں کا قائد و رہنما بتاکر عوام کے بیچ اپنی موجودگی درج کرانے کے لئے بے تاب ہیاور اس معاملے میں ایک دوسرے پر بازی لے جا نے کا دور بھی جاری ہے لیکن آپ اگر تلاش کریں تو ایک بھی ایسا شخص آپ کو نظر نہیں آئے گا جس کے سینے میں قوم کا درد اور ان کے شاندار مستقبل کی فکر ہو اور جو قوم کی فکر کے ساتھ ملک کی شاندار ترقی کا سپنا دیکھتا ہو ،مجھے معاف کیجئے میں ان لوگوں کی بات نہیں کرتا جو سیاسی مفادات کے لئے مسلم قوم کی نمائندگی کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے وقار کا سودا کر نا اور انہیں اپناعملی وفکری غلام بنا کر رکھنانہ صرف اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں بلکہ ان کے قول و فعل کا تضاد ہمیشہ مسلم قوم کی تباہی و بر بادی کا ذریعہ بنتا رہا ہے کیونکہ ایسے لوگ تو آپ کو ہر گلی اور چوک چوراہے پر پوری طرح بے حیائی و بے شرمی کے ساتھ اپنا کالر سیدھا کرتے نظر آئیں گے لیکن ان سے کسی بھی طرح کی امید خود آپ کی اپنی کمزوری کے مترادف ہوگا ،بلکہ مجھے افسوس تو ان سیاسی و ملی رہنماوں کے طرز عمل پر ہے جو اگر چہ زندگی کی شب و روز میں مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی کا دعوی تو نہیں کرتے مگران کے دلوں میں قوم کی محبت ہر لمحہ جوش مارتی ہے اور ان کے سینوں میں ایک تڑپ و بے چینی رہتی ہے جنکی تپش ہر وقت انہیں زندہ و فکر مند بنائے رکھتی ہے ،لیکن آج جبکہ اس وقت بہار کے عوام کو ان کے اشاروں کا انتظار ہے اور یہاں کے سنجیدہ و سیکولر مزاج لوگ بارباران کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھ رہے ہیں انہوں نے خاموشی اختیار کر کے پوری قوم کی پیشانیوں پر فکر کی لکیر کھینچ دی ہے ،حالانکہ کہ یہ احساس تو شاید انہیں بھی ہو گا کہ ان کے اشارے پوری قوم کے لئے حکم کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور مجھے بھی چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ اگر ہمارے رہنماء ذاتی مفادات و خود غرضانہ طرز عمل کو چھوڑ کر خالص انسانی فکر و احساس پر مسانوں کے حقوق کی بقا و تحفظ کے لئے ایک ساتھ آواز دیں تو ان کی ایک للکار پورے سیاسی خیمے کی نیند اڑا سکتی ہے لیکن اس کے لِئے سب سے پہلے ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی ہوگی اور ماضی کی خول سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف رخت سفر باندھنا ہوگا ، غور کیجئے آج بہار کے حالات بہت ہی زیادہ بدلے بدلے سے نظر آ رہے ہیں اپنی مضبوط نما ئندگی کا نعرہ دے کر مسلمانوں سے وفاداری کا دعوی کر نے والے کئی لوگ آج میدان میں کود چکے ہیں اور ہر کوئی اپنی قیادت اور اپنی سیاست کی بات کر رہا ہے لیکن موجودہ سیاسی صف بندی میں ان کی یہ کوشش کس کے لئے سود مند اور کس کے لئے نقصان دہ ہو گی اس پر بحث و تبصرے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس حوالے سے ساری تفصیلات سامنے نہیں آجاتیں ،ادھر بہار کی سیاست میں اویسی برادران کی آمد نے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کی مضبوط منصوبہ بندی کے سامنے کئی مشکلیں کھڑی کر دی ہیں اور اب تو وقت و حالات کے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے ارادے کو عملی شکل دے دی تو بہار فرقہ پرستی کی نئی راہ پر چل پڑے گا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ اویسی برادران کی بے باکی مسلمانوں کے عزم کی تصویر ہے اور انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں اب تک جس طرح اپنی جرات کا مظاہرہ کیا ہے اس کے نمو نے بہت کم مل پائیں گے ،مگراس کے باوجود مجھے نہ معلوم کیوں یہ لگتا ہے کہ بہار کے موجودہ سیاسی منظرنا مے میں انکا یہ قدم مسلمانوں کے لئے کسی تباہی کا پیش خیمہ ہوگااور ان کے فیصلے سے سیکولر ووٹ کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا جس کاسیدھا فائدہ فرقہ پرست جماعتیں اٹھانیمیں کامیاب ہوگی جیسا کہ ماضی کی تاریخوں میں کئی بار بہار کہ سرزمیں اس تکلیف دہ حالات کا سامنا کر چکی ہے ،اور ہاں یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس وقت معاملہ صرف سیاست کا نہیں بلکہ پوری قوم کی تقدیر کاہے اور ظاہر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ فرقہ پرست جماعتیں ملک کو توڑنے اور یہاں کے ماحول میں نفرت و تعصب کا زہر گھولنے کی سازشوں میں مصروف ہیں ،ضرورت تو یہ تھی کہ ملک کے چپے چپے میں اپنی انفرادیت کے لئے مشہور مسلم نمائندیاپنے اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر خالص قومی مفادات کی بقا و تحفظ کے ارادے سے بہار کے اندر سیکولر اتحاد کی مضبوط سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن کر فرقہ پرستوں سے مقابلے کی زمین تیار کرتے ،میں مانتا ہوں کہ اویسی برادران نے بہار کی سرزمین پر اپنے جس سیاسی سفر کی شروعات کی ہے اس سے انہیں کچھ فائدے حاصل ہو جائیگے مگر یہ فائدے پوری قوم کے لئے کن مشکل حالات کو جنم دیں گے اس کا بھی تو اندازہ لگا لیا جانا چاہئے اسی کے ساتھ کاش انہوں نے اس پہلو پر بھی سوچ لیا ہو تا کہ بہار میں ان کا قدم رکھنا ہم جیسے نہ جاتے کتنے ہی لوگوں کی پیشانیوں پر سوالیہ نشان ڈال سکتا ہے ،اس لئے کہ بہار کی یہ وہ سرزمین ہے جو اپنے سیکولر کردار کے لئے ہمیشہ مشہور رہی ہے جسے نفرت کی بھٹی میں جھلسا کر اس کے سیکولر کردار کو مسخ نہیں کیا جا سکتا اس لئے اب بھی اویسی برادران کو آگے بڑھنے سے پہلے سوبارسوچنا ہو گاکہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے سے پر ہیز کریں جس سے یہاں کی سیاسی فضاہ مکدر ہو سکے اور اگر ایسا نہیں ہوا اور انہوں نح اس سمت میں سوچنے کے لئے خود کو تیار نہیں کیا ،تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بھیانک نتائج ہمیشہ کے لئے بہار کی تاریخ کا رخ بدل دیں جس کی ساری ذمہ داری اویسی برادران اور ان جیسے دیگر لیڈروں کو ہی لینی ہوگی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا