English   /   Kannada   /   Nawayathi

ستمبر 1948 سے 2015 تک

share with us

کیسے جوان جوان بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے ختم کردیا گیا۔ کیسے اپنے وقت کے امیر ترین حکمران نظام دکن نواب میر عثمان علی خان جنہیں اب بھی ہمارے بزرگ اعلیٰ حضرت کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں‘ بے بس ہوکر رہ گئے۔ کیسے ایک یہودن بیوی کی سازش کا شکار ہوکر حیدرآبادی فوج کے کمانڈر نے ہتھیار ڈال دےئے تھے۔ کس طرح سے دور اندیشی، بصیرت سے محروم جذباتی قیادت نے حیدرآبادی مسلمانوں کی جانوں سے کھلواڑ کیا۔ ٹوٹی پھوٹی کھلونوں جیسی بندوقوں سے عصری اسلحہ سے لیس ہندوستانی فوج سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ کس طرح سے خوش فہمی اور خوش گمانی کا شکار کیا گیا کہ آصف جاہی پرچم لال قلعہ پر بھی لہرایا دیا جائے گا۔ جسے وطن پر شہید ہونا تھا ہوگئے۔ جنہیں اقتدار کی بھینٹ چڑھایا جانا تھا وہ چڑھ گئے۔ اور جنہیں اپنی جان بچانی تھی وہ سودے بازی کرکے ہندوستان سے چلے گئے اور حیدرآبادی مسلمان کو دوسروں کی کئے کی سزا برسوں تک ملتی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ سطحی حکام کی ہدایت پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں کے لئے بند کردےئے گئے۔ اردو زبان کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ وقت یوں ہی گذرتا گیا۔
ہم‘ جنہوں نے 47 اور 48 نہیں دیکھا البتہ1989ء کا بھاگلپور، 1990ء کا حیدرآباد، 1993ء کا ممبئی، 2002ء کاگجرات اور 2013ء کا مظفرنگر دیکھا ہے‘ اکثر 1947ء کے تقسیم وطن کے دوران کے واقعات اور 1948ء میں انضمام حیدرآباد کے موقع پر پیش آنے والے واقعات کا تقابل کرتے ہیں تو کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ وہی ذہنیت، وہی مسلمانوں کی نسل کشی کے مقصد کے ساتھ کئے جانے والے فسادات، وہی پولیس کا رویہ، وہی بیورو کریسی، حتیٰ کہ اِس دور کے ’’نظام‘‘ میں بھی کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ دکن کے آخری نظام کے بارے میں بڑی اچھی رائے رہی ہے۔ کہ وہ مخیر تھے۔ دور اندیش تھے۔ انہوں نے قوم کی خاطر اپنے اقتدار کی قربانی دی۔ ایک رائے یہ بھی رہی کہ ان کے حاشیہ برداروں نے ان کی ہمیشہ غلط رہنمائی کی۔ خوشامد پسند درباری حلقہ انہیں ہمیشہ آسمان کی سیر کراتا رہا اور قدموں کے نیچے سے زمین کھینچتا رہا۔ آج کے دور کے ’’نظام‘‘ کا حال بھی وہی ہے۔ وہی خوشامدی حلقے، وہی چاپلوس حاشیہ بردار، جو اپنے مفادات کی خاطر قوم کی سوداگری کرواتا رہتا ہے۔ آج کے ’’نظام‘‘ کون؟ یہ سوال یقیناًآپ کریں گے۔ وہی جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ جنہیں مسلمان اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔ جن پر وہ اپنے آپ سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں وہ اقتدار میں نہ بھی ہوں تو ایوان اقتدار میں ان کی رسائی ہے۔ جو چاہیں تو محاورتاً مسلمانوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں مگر کل کے اور آج کے نظام میں فرق اتنا ہی ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی قوم کے لئے اپنے اقتدار کی قربانی دے دی آج کے نظام اپنے اقتدار کے لئے قوم کو قربان کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور آزادی کے بعد سے لے کر آج تک ایسا ہوتا آیا ہے۔ ایسا نہیں کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو اہمیت نہیں ملی۔ انہیں اہمیت بھی ملی، اقتدار بھی ملا یہ اور بات ہے کہ اس کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والوں نے یا مسلمانوں سے ہمدردی جتانے والوں نے ان کی بدحالی، کسمپرسی، پسماندگی پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والوں نے مسلمانوں کی آنکھوں میں بھی آنسوؤں کو برقرار رکھا تاکہ انہی آنسوؤں سے اپنے سیاسی مستقبل کی آبیاری کی جاسکے۔
68برس کے دوران ہندوستانی اور 67برس کے دوران حیدرآبادی مسلمانوں نے کیا ترقی کی؟ ماضی کے واقعات سے کیا انہوں نے عبرت حاصل کی، کوئی سبق سیکھا یا صرف گذرے ہوئے واقعات کا ماتم کیا۔ آنسو بہائے اور یونہی زندگی گذار دی۔
68برس کے دوران مسلمان ہندوستان کی پسماندہ ترین قوم بن گئے۔ یہ کارنامہ کانگریس حکومتوں کا رہا۔ بطور سند سچر کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات بھی پیش کردی‘ مسلمان خوش ہوگیا کہ کم از کم پسماندگی میں تو ہم سب سے آگے ہیں۔ کانگریس حکومت کے ممنون و مشکور ہوگئے کہ انہوں نے بڑی جرأت اور ہمدری کے ملے جلے جذبوں کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کو آئینہ دکھاکر ان کی اصلیت بتادی۔ 1993ء کے فسادات کے بعد ممبئی کے مسلمانوں کی طاقت تقریباً ختم ہوگئی۔ممبئی کے میاں بھائی سے ہندوستان ڈرتا تھا مگر آج ممبئی کا میاں بھائی ’منا بھائی‘ کی طرح سہما سہما سا نظر آتا ہے۔ حیدرآبادی مسلمان 67برس کے دوران کم از کم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ تعلیمی میدان میں اس نے کسی قدر آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ اپنے کھوئے ہوئے شاندار ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے جدوجہد کی۔ خلیجی ممالک میں معاشی وسائل پیدا ہوئے اور حیدرآبادی مسلمانوں نے جھلسا دینے والی دھوپ میں اپنا پسینہ بہاکر اپنے شہر اور گھر دونوں کے رونق کو بحال کیا۔ کسی قدر خوشحالی آئی۔ جب جب حیدرآبادی مسلمان کچھ بچت کے قابل ہوا تب تب انہیں مختلف بہانوں سے لوٹ لیا گیا۔ حلال نفع کے نام پر بلاسودی کاروبار کے نام پر کبھی رےئل اسٹیٹ کے بہانے کبھی ساگوان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دلاکر انہیں کنگال کیا گیا ۔ یکے بعد دیگر جھٹکوں نے مرفع حال حیدرآبادی مسلمانوں کو وہیں لاکھڑاکیا جہاں وہ برسوں پہلے تھے۔ دھوکہ باز کمپنیوں، شاطر بنکرس کے جال میں پھنسنے سے توبہ توبہ کر لیا مگر شادی بیاہ اور دیگر تقاریب عالی شان مکانات کی تعمیر میں اصراف نے انہیں جہاں کا وہاں رکھا۔
یہ حال متوسط طبقہ کاہے۔ امیر مسلمان کل بھی حالات سے بے پرواہ تھا آج بھی بے فکر ہے۔ امراء و جاگیرداروں کی اکثریت لغویات کے شکار ہونے کی وجہ سے قوم و ملت کے لئے بے فیض ہیں۔حیدرآباد پر جنہوں نے حکومت کی ان کے ارکان خاندان کو بگڑے ہوئے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف ذرائع سے نوازا۔ مگر ریس کورس او ر دوسری لغویات ان کے لئے دیمک کی طرح ہیں۔
حیدرآباد جو کبھی 14ضلعوں پر مشتمل تھا اب تلنگانہ میں سابق ریاست کے 10اضلاع شامل ہیں۔ تشکیل تلنگانہ سے پہلے آندھرائی حکمرانوں نے ہماری تہذیب، ثقافت، معیشت کو تباہ و تاراج کیا۔ نئی ریاست، نئی حکومت سے نئی امیدیں ہیں‘ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر اپنی تقاریر میں ’’نظام‘‘ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کا احترام کرتے ہیں۔مگر نظام کو خراج عقیدت پیش کرنے سے کیا تلنگانہ یا حیدرآباد کے مسلمانوں تقدیر سنور سکتی ہے۔ آج تلنگانہ کا خواب حقیقت میں بدلے ہوئے سوا برس بیت گیا۔ تلنگانہ حکومت کے لوگو میں اردو شامل تھی‘ ساری دنیا نے خراج تحسین پیش کیا مگر اب بیشتر محکموں کے سرکاری لوگوز سے اردو غائب ہوچکی ہے۔ اردو اساتذہ کے سرکاری ایوارڈس کے لئے ایک بھی اردو ٹیچر کا انتخاب نہیں ہوسکا۔ اردو جائیدادوں تقررات کا انتظار کیاجارہا ہے۔ اور ارباب اقتدار اردو کو میٹھی زبان، ہندوستانی زبان، قومی یکجہتی کی زبان، نظام کو اپنا بادشاہ سب کچھ کہہ رہے ہیں مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو نہ تو اردو یاد آتی ہے اور نہ ہی وہ قوم جس سے کبھی نظام کا تعلق تھا۔ حتیٰ کہ 1956 کے بعد سے لے کر آج تک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میڈیا اکریڈیٹیشن کمیٹی میں بھی اردو کے نمائندے کو شامل نہیں کیاگیا۔ جانے کیوں اس موقع پر ساحر لدھیانوی کے یہ دو شعر یاد آرہے ہیں جو انہوں نے جشن غالب کے موقع پر کہے تھے۔
جس عہدسیاست نے یہ زندہ زبان کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوموں کا غم کیوں ہے
غالب جسے کہتے ہیں اردو ہی کاشاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھاکر غالب پر کرم کیوں ہے
اردو کی تعریف کرنے سے زیادہ اردو زبان کی بقاء اسے روزگار سے جوڑ نے کی ضرورت ہے۔ نظام کی تعریف کرنے سے نہ توان کے درجے بلند ہوں گے اور نہ ہی ان کی مخالفت سے تاریخ میں ان کی اہمیت میں کوئی فرق آئے گا۔ نظام نے جو کچھ کیا تھا وہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔ نظام کے چاہنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیانرس کے دفاتر میں ان کی تصاویر کی نمائش کرنے کی بجائے نظام کے وہ اقدامات کرے جس نے 67برس بعد بھی نظام کا نام زندہ رکھا ہے۔رسمی تقاریرکا اثر دیر پا نہیں رہتی۔ عمل کا اثر دائمی ہوتا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا