English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولانا آزاد کی تعلیمی و فنی فکر اور جستجو و تحریک پر عمل کریں گے تو یقیناًہندوستان دنیا کا واحد ترقی یافتہ ملک قرار دیا جائے گا ۔عبدالسبحان

share with us

‘میں اس دن کا منتظر ہوں جب ہندوستان میں باہر سے لوگ آکر سائنس اور فنی تعلیم و تربیت حاصل کریں‘‘ان مقاصد کی تکمیل کیلئے مولانا آزا دنے کئی اہم اور ٹھوس اقدام اُٹھائے اور انھوں نے کئی اداروں کا قیام عمل میں لایا۔ جناب عبدالسبحان نے مولانا آزاد کی تعلیمی پالیسیوں پر سیر حاصل روشنی ڈالتے ہوئے ان کے تعلیم کیلئے نئے اہداف کے طورپر فروغ دینے والے چار مقاصد کو پیش کیا ۔انھو ں نے سب سے پہلا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ مولانا چاہتے تھے کہ تعلیم کے نقطہ نظر کو وسیع کیا جائے اسی لئے انھو ں نے تعلیم کو آزادانہ طورپر ثانوی مرحلے تک لازمی طورپر بنایا ‘لیکن ہم آزادی کے70سال بعد بھی حق تعلیم کے حصول کے ہونے کے بعد بھی ناخواندگی کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔جناب عبدالسبحان نے مولانا آزاد کا دوسرا مقصد یہ بتایا کہ وہ چاہتے تھے کہ باہمی تفہیم کا فروغ ہو۔ جس کے تحت انسانی نظریات اور انسانی فلاح و بہبود کے ضمن میں گذشتہ 70سال میں ترقی کے فوائد اُٹھاتے ہوئے ہمارے ہمارے آبا و اجداد Vission Of India کو مجموعی طور پر ناکام کردیا ۔چونکہ ہندوستان میں پسماندہ سے درمیانی طبقے آنے کے بعد میں درمیانی طبقہ پچھڑے طبقات کیلئے تعلیمی و ثقافتی اور معاشی شعبہ جات میں بھلائی کی فکر کرنے لیکن ہندوستان کا درمیانی طبقہ خود غرص اپنی اور اپنے گھر حد اورخود غرضانہ فکر تک محدود رہ گیا ہے ۔جناب عبدالسبحان نے تیسرا مقصد پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا آزادچاہتے تھے کہ تعلیمی معیار کی بحالی ہو ‘ کسی بھی وقت میں تعلیم کے بورڈ کے شعبہ جات میں حقیقت کی تلاش ‘ذخیرہ کرنے اور قومی منصوبہ بندی کا سامنا کرناہے۔ انھو ں نے تکنیکی تعلیم کیلئے آل انڈیا فار کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کو شروع کیا اور ثقافتی اہمیت کیلئے ادارہ جات کا میزان کو قائم کیا۔ مولانا آزا دنے اتنا ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ‘انڈین سنٹرل کونسل فار ایگریکلچر اینڈسائنٹفک ریسرچ‘ انڈیا فار میڈیکل ریسرچ‘ انڈین کونسل فار سائنس ریسرچ وغیرہ ‘سنٹرل کونسل فار انڈسٹریل ریسرچ ادارے کو متحرک بناتے ہوئے انھوں نے اس میں تحریک پیدا کیا اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ‘بنگلورو کی توسیع و ترقی کی۔ نیشنل کونسل فار ٹکنیکل ایجوکیشن کے توسط سے ملک میں ٹکنیکل ایجوکیشن کا جال بچھادیا۔ مولانا آزاد کاایک اور بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھو ں نے فنی تعلیم و تربیت کیلئے انھوں نے کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے قیام کو عمل میں لایا۔ مولانا آزاد آخری دم تک ملک کی اعلی اور فنی تعلیم کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ مولانا آزاد 55سال قبل اس بات کا احساس کیا کہ روزگار کے مواقع تعلیم کی توسیع کے ساتھ رفتار رکھتی ہیں ‘جس پر عمل نہ ہو تو شدید ناکامی کا باعث بنتی ہیں لہذا انھوں نے تعلیمی ماہرین کو روایتی نظریات سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اعلی تعلیمی ملازمت کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا ۔مولانا آزاد نے اعلی تعلیم میں مہارت اور تربیت کو بہت زیادہ باہمی تفہیم کی پیشکش کی۔انھوں نے مشورہ دیا کہ یونیورسٹیوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ شعبہ جات یا سیکٹر میں طلباء اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنا چاہئے اور شعبہ جات میں کامیاب ہونے کی ضرورت پرزور دیا ۔جناب عبدالسبحان نے مولانا آزاد کی چوتھی پالیسی بتاتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد نے ’’ ڈیموکریٹکائزیشن آف ایجوکیشن‘‘ مولانا آزاد جمہوریت میں ایک مضبوط پُر اعتماد شخصیت تھے ‘جس نے سوچا کہ وہ مضبوط بنیاد لی جائے جس سے اگرتعلیم کی پیشکش سے تعلیم حاصل ہوتی ہے تو ’’کامیابیوں کی سماعت ‘‘ کا نقط نظر سے شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے تعلیم میں جمہوریت سازی کیلئے اپنی کوششوں کو اشارہ دیا جس کے ذریعے وہ کامیابی کی راہ پر رہے ۔ انھوں نے سامعین سے پُر زور انداز میں کہا کہ اگر ہم مذکورہ بالا مولانا آزاد کی تعلیمی و فنی فکر اور جستجو و تحریک پر عمل کریں گے تو یقیناًہندوستان دنیا کا واحد ترقی یافتہ ملک قرار دیا جائے گا جہاں بنیادی تعلیم سے اعلی تعلیم تک طلباء حصول تعلیم میں فنی و ٹیکنالوجی تعلیم ا و ر طریقہ ریسرچ سے بھی استفادہ کرسکے۔آج کے اس جدید دور میں مولانا آزاد کی یہ فکر کتنی اثر انداز ہوتی‘ کاش ہم اس پر عمل کرتے ۔ہمیں چاہئے کہ مولانا آزاد کی اس تعلیمی فکر و تحریک کو پروان چڑھاتے ہوئے ملک ہندوستان کو اور بھی ترقی پذیر ملک بنایا جاسکتا ہے۔جناب عبدالسبحان نے مزید کہا کہ مولانا آزاد کا اصل تصورتھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ہندوستان کوفنی اور سائنسی تعلیم میں پیچھے دیکھنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ملک ہندوستان تعلیمی و فنی میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔جناب عبدالسبحان نے کہا کہ مولانا آزاد عربی مدارس کے نصاب کا تنقیدی جائزہ لے چکے تھے اور اس سے اپنے عدم اطمینان کا اِظہار کرچکے تھے۔ وہ چاہتے تو مدارس کی تعلیم کو اہمیت دیتے اور اپنی وزارتِ تعلیم کی پالیسی میں مدارس کو بھی شامل کرتے تو ترقی کی راہ کچھ اور ہی ہوتی۔مولانا آزاد نے جس خوبصورتی کے ساتھ اپنی فکر کا نقش تعلیم و تربیت کے ہر پہلو پر ثبت کیا ‘ا س کا اندازہ محض تعلیمی رپورٹوں اور اعداد وشمار کو دیکھ کر نہیں ہوتا کہ اس نازک دور میں وقت کے اس سخت موڑ پر ان کی رہنمائی کی دولت نصیب نہ ہوتی تو ہماری تعلیم اور کلچر کا تصور کس قدر مسخ اور مُختلف ہوتا۔مذکورہ بالا پروگرام میں شریک تمام سامعین نے جناب عبدالسحان کے اس خطابِ مباحثہ کوبہت پسند کیا اورانھیں اس قدر مفید اور سیر حاصل معلومات فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا ۔مذکورہ بالا سمینار میں کلیدی خطبہ ماہر معاشیات ‘پدما بھوشن پروفیسر کرت پاریکھ سابق رکن منصوبہ بندی کمیشن نے دیا۔اور عصری قانونی تعلیم کے باوا آدم مانے جانے والے پدما شری ڈاکٹراین آر مادھو امنین دوسرا کلیدی خطبہ پیش کیا۔پروگرام میں مسٹر سدھیر صدر نشین سدھیر کمیٹی حکومتِ تلنگانہ ‘ اور پروفیسر امتیابھ کنڈو رکن قومی شماریات کمیشن حکومتِ ہند کلیدی خطبات پر تبصرہ کیا۔دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر ابو صالح شریف نے کیا ۔مباحثے کے سیشن میں عبدالسبحان منیجنگ ڈائریکٹر شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس بنگلور کے علاوہ ڈاکٹر محسن عالم بھٹ ایکزیکٹیو ڈائریکٹر سنٹر فار پبلک انٹرسٹ لاء‘ ڈاکٹر محسن رصا خان اسٹیٹ ڈین اسڈوڈنٹس انیشی ایٹوس‘ جندل اسکول آف انٹر نیشنل افیئرس‘ او پی جندل گلوبل یونیورسٹی ‘سونی پیٹ ہریانہ ‘ڈاکٹر عبدالشعبان ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل سائنسس ‘تلجا پور کمیشن حصہ لیا ۔پروگرام میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا