English   /   Kannada   /   Nawayathi

گجرات کے ساحل کے نزدیک پاکستانی کشتی پکڑی گئی ، سات افرادبھی گرفتار(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

بہار میں آج سے شراب پرپاپندی سے متعلق نیا قانون نافذ

پٹنہ : 02 اکتوبر(فکروخبر/ذرائع)بہار میں گاندھی جینتی کے موقع پر آج سے شراب پر پابندی سے متعلق نیا قانون نافذ ہو گیا ہے۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے یہاں ریاستی وزارتی کونسل کی ہوئی خصوصی میٹنگ کے بعد منعقد پریس کانفرنس میں کہا کہ ریاست میں شراب پر مکمل پابندی نافذ کر دی گئی ہے۔ مسٹر کمار پہلے ہی گاندھی جینتی کے موقع پر (02 اکتوبر) شراب پر بندی کا نیا قانون نافذ کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔مسٹر کمار نے کہا کہ شراب پر پابندی کے نئے قانون بہار شراب بندی و آبکاری قانون 2016 کو آج سے نافذ کر دیا گیا ہے اور اس بارے میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں شراب بندی نافذ کرنے کا عہد کیا گیا۔ اس قانون میں شراب بندی کے خلاف ورزی کرنے پر سخت ضابطے بنائے گئے ہیں۔وزیر اعلی نے کہا کہ مانسون اجلاس میں ہی دونوں ایوانوں سے اس سے متعلق بل کی منظوری ملی تھی اور اس کے بعد گورنر نے بھی اس پر مہر لگا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شراب بندی کے بعد لوگوں میں خاص طور پر خواتین میں جوش کا ماحول ہے۔ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے ساتھ ہی ریاست میں فوری طور پر شراب بندی کا نیا قانون موثر ہو گیا ہے۔مسٹر کمار نے کہا کہ شراب بندی کے معاملے میں ریاستی حکومت پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ جو عوامی بیداری شراب کے معاملے میں آئی ہے اسے آگے بڑھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی عوامی بیداری کی علامت ہیں اور اسی لیے گاندھی جینتی کے دن بہار شراب بندی اور آبکاری ایکٹ 2016 مؤثر ہو گیا ہے۔وزیر اعلی نے کہا کہ ریاستی حکومت پٹنہ ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی جس میں بہار حکومت کے پانچ اپریل کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپیل میں جانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے اس مدت میں حکومت کی طرف سے کئے گئے فیصلے اور بہت سے دوسرے معاملات پر اس کا اثر پڑے گا۔ مسٹر کمار نے کہا کہ شراب بندی نے بہار کی حالت اور سمت بدل دی ہے۔ ریاستی حکومت نے اس مہم کو سب کے تعاون سے شروع کیا اور اس سے ریاست میں امن اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوا ہے، جو محسوس کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چمپارن ستیہ گرہ کے سو سال اور مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش پر نیا قانون نافذ کر کے بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ گاندھی جی شراب بندی کو معاشرے کے لئے انتہائی ضروری مانتے تھے اور انہی سے تحریک ملی ہے۔ وزیر اعلی نے بتایا کہ بہار میں مہم جاری رہے گی اور وہ ملک میں شراب بندی کو نافذ کرنے کی مہم چلاتے رہیں گے۔ شراب بندی ملک کے مفاد، سماج کے مفاد اور اپنے مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت تمام لوگوں سے اس ایکٹ کی دفعات پر عمل کرنے کی توقع کرتی ہے۔


سرحد پر بندوقیں خاموش ، مقامی لوگوں نے لی راحت کی سانس

سری نگر :02 اکتوبر(فکروخبر/ذرائع) جموں وکشمیر میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بین الاقوامی سرحد (آئی بی) پر گذشتہ تین دنوں کے دوران جنگ بندی کی پے در پے خلاف ورزیوں کے بعد ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کے دوران دونوں طرف کی بندوقیں خاموش رہیں جس کے باعث سرحدی دیہاتیوں نے راحت کی سانس لی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران فائرنگ کا کوئی تازہ واقعہ پیش نہیں آیا۔ذرائع نے بتایا کہ جن سرحدی دیہاتوں نے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کے لئے اپنے آپ کو تیاری کی حالت میں رکھا تھا، نے دونوں طرف کی بندوقیں خاموش ہوجانے کے بعد راحت کی سانس لی ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ ضلع جموں کے اکھنور اور کھور علاقوں اور کٹھوعہ و سامبا اضلاع کے سرحدی دیہات سے قریب 20 ہزار دیہاتی محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ذرائع نے تاہم بتایا کہ ان تینوں اضلاع (جموں، کٹھوعہ اور سامبا) کے بیشتر سرحدی دیہاتی محفوظ مقامات کی طرف منتقل نہیں ہوئے ہیں۔خیال رہے کہ ہندوستانی فوج کی طرف سے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کے دوران سرحد کے اُس پار قائم مبینہ جنگجو کیمپوں پر سرجیکل حملے کرنے کے دعوؤں کے بعد انتظامیہ نے سرحدی دیہاتیوں کو احتیاطی اقدامات کے طور پر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کے لئے کہا تھا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ضلع کٹھوعہ میں سرحدی دیہاتیوں کو عارضی طور پر پناہ دینے کے لئے 10 جگہوں پر کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ دیگر دو اضلاع (جموں اور سامبا)کے سرحدی دیہات سے منتقل ہونے والے دیہاتیوں کو عارضی کیمپوں بشمول اسکول عمارتوں، عبادت گاہوں اور کیمونٹی ہالوں میں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ۔ انہوں نے بتایا کہ عارضی طور نقل مکانی کرنے والے دیہاتیوں کو ان کیمپوں میں ہر طرح کی سہولیت فراہم کی جارہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ سینکڑوں کی تعداد میں سرحدی دیہاتیوں نے ضلع ہیڈکوارٹروں میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لی ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ احتیاطی اقدامات کے طور پر سرحدی دیہات میں قائم تمام اسکولوں کو تاحال بند ہی رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اسپتالوں، کریٹکل کیئر ایمبولینسوں اور امدادی ٹیموں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔دوسری جانب اگرچہ شمالی کشمیر میں ایل او سی کے نذدیکی علاقوں خاص طور پر گریز اور اوڑی کے سرحدی دیہاتیوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی نہیں کی، تاہم مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ضلع کپواڑہ کے کرناہ تحصیل کے سرحدی دیہاتوں سے کم از کم 100 کنبے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ضلع بانڈی پورہ کے سرحدی علاقہ گریز کے ایک رہائشی نے یو این آئی کو فون پر بتایا جمعرات کو سرحدی دیہات میں جوں ہی یہ خبر پھیل گئی کہ ہندوستانی فوج کی طرف سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قائم مبینہ عسکریت پسندوں کے کیمپوں پر حملہ کیا گیا تو لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ 2003 میں جنگ بندی معاہدے سے قبل مقامی رہائشیوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔
ضلع بارہمولہ کے سرحدی علاقہ اوڑی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مذکورہ سرحدی قصبے میں زندگی معمول پر ہے، جہاں 18 ستمبر کو بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر ہونے والے فدائین حملے میں 20 فوجی اہلکار ہلاک جبکہ 20 دیگر زخمی ہوگئے۔ گریز کے ایک اور رہائشی نے بتایا جنگ کے دوران عام شہری ہی متاثر ہوجاتے ہیں۔ سیکورٹی فورسز تو اپنے بنکروں میں رہتے ہیں جبکہ سیاستدان ایل او سی سے بہت دور بیٹھے اپنے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ سرحد کے اُس پار رہائش پذیر لوگوں کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شیلنگ کے نتیجے میں وہ بھی مارے جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے معذور ہوجاتے ہیں


بیر بھوم کے کنگلا پہاڑی گاؤں میں پوجا پنڈال نہیں لگانے دینے کی خبر کے ذریعہ ماحول کو بگاڑنے کی کوشش

کلکتہ :02 اکتوبر(فکروخبر/ذرائع) درگا پوجا میں چند روز باقی رہ گئے ہیں تو مغربی بنگال کے بیر بھوم ضلع کے ایک گاؤں میں درگا پوجا کیلئے پنڈال لگانے کی اجازت نہیں دیے جانے کی خبرکو قومی میڈیا میں غلط انداز میں پھیلا کر ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ نلہٹی اسمبلی حلقہ جہاں یہ گاؤں واقع ہے ۔وہاں کے ممبر اسمبلی محمد معین الدین شمس نے آج کہا ہے کہ بی جے پی اور ایک ہندی ، ایک انگریزی نیوز چینل غلط انداز رپورٹنگ کرکے بنگال میں ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جب کہ بنگال ہمیشہ سے وارانہ ہم آہنگی کیلئے مشہور رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کے اسمبلی حلقے میں پرامن انداز میں عید قرباں کا اہتمام کیا گیا اوراب درگاپوجا و محرم و دیوالی کابھی اہتمام کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں نے علاقے کا دورہ کیا ہے مگر یہاں کسی بھی طرح سے ماحول کشیدہ نہیں ہے بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنگلا پہاڑی گاؤں کے رہنے والوں کو بھی یہ نہیں ہے معلوم ہے ان گاؤں سے متعلق اس طرح کی خبریں چل رہی ہیں ۔
معین الدین جو پہلی مرتبہ اس اسمبلی حلقے سے ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں اوراس سے قبل ان کے والد و بنگال کے مشہور سیاست داں کلیم الدین شمس فارورڈ بلاک کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتے تھے اور وہ جیوتی باسو کی حکومت میں سینئر وزیر بھی تھے نے کہا کہ اس گاؤں میں 1972سے ہی نہ قربانی کی جاتی ہے اور نہ درگا پوجا منایا جاتا ہے ۔مگر گزشتہ چند سالوں سے بی جے پی یہاں پر اپنی پکڑ مضبوط بنانے کیلئے اس معاملے کو غلط انداز میں پیش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال عید قرباں کے موقع پر نلہٹی پولس اسٹیشن میں گاؤں کے لوگوں کی میٹنگ ہوئی تھی جس میں اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیاگیا تھا کہ روایات کو برقرار رکھاجائے گا ۔نہ مسلمانوں کو قربانی کی اجازت ہوگی اور نہ ہندؤں کو درگا پوجا کیلئے پنڈال لگانے کی اجازت ہوگی۔ شمس نے کہا کہ اس میٹنگ میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔خیال رہے کہ ملک کی قومی نیوز چینلوں میں یہ خبر نشر کی جارہی ہے کہ جھار کھنڈ سے متصل بیر بھوم ضلع کے ایک گاؤں میں مسلمانوں کے دباؤ کی وجہ سے گاؤں کی ہندو آبادی کو درگا پوجاکا پنڈال لگانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔جب کہ اس خبر میں واقعہ کے صرف ایک پہلو کو ہی اجاگر کیا جارہا ہے ۔جس گاؤں میں درگا پوجا کے لئے پنڈال لگانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔وہاں کئی سالوں سے مسلمانوں کو قربانی کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہندؤں کو پنڈال لگانے کی اجازت ہے۔انتظامیہ گاؤں میں امن و امان قائم کرنے کیلئے یہ فیصلہ کر رکھا ہے۔ مگر درگا پوجا سے عین قبل اس طرح کی متنازع خبر کو نشر کرنا اور اس پر بحث و مباحثہ کے مقصد پر مسلم حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر شمیم احمدنے یو این آئی سے کہا کہ ملک کی قومی میڈیا خبر کو غلط انداز سے پیش کرکے مغربی بنگال کے فرقہ وارانہ یکجہتی کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک قومی نیوز چینل نے مرشدآباد ضلع جہاں مسلم اکثریتی آبادی ہے وہاں سے متعلق یہ خبر تک نشر کی کہ وہاں ہندؤں کے درگاپوجا کے پنڈال کو توڑ دیاجاتاہے۔انہوں نے کہا کہ حقیقت کے سراسر منافی یہ خبر ہے ۔
مغربی بنگال ہندوستان کی وہ ریاست ہے جہاں درگا پوجا کے تہوار کیلئے پنڈ ال کمیٹی یا پھر انتظامیہ میں مقامی مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کلکتہ میں پوجا پنڈال کے باہر کمیٹی کے اراکین کے نام پڑھنے کے بعد اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ یہاں کی کمیٹیوں میں مسلم نوجوان بھی شامل ہیں جو بردران وطن کے تہوار میں ان کے ساتھ تعاون ، بھائی چارہ اور ہمدردی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔
خیال رہے کہ ملک کی ایک انگریزی نیوز چینل اور ہندی نیوز چینل جو مسلم مخالف ذہنیت کی وجہ سے بدنام ہے نے بیر بھوم ضلع کے کنگلا پہاڑی گاؤں جہاں نہ قربانی اور درگا پوجا کی اجازت ہے سے متعلق خبر نشر کرتے ہوئے صرف ایک پہلو دکھایا کہ یہاں درگا پوجاکی اجازت نہیں ہے اور اس کے ذریعہ ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کی جم کر تنقید کی گئی کہ وہ مسلم ووٹ بینک کی سیاست کررہی ہیں ۔ ایک نیوز چینل نے اس پورے معاملے کو نام نہاد سیکولر ازم اور مسلمانوں کی منھ بھرائی  قرار دیا اور ایک چینل نے کہا کہ ممتا بنرجی نے ہندؤں کو کنارہ لگادیا ہے۔
واضح رہے کہ کنگلا پہاڑی گاؤں بنگال ۔جھاڑ کھنڈ سرحد پر آباد ایک غریب و پسماندہ آبادی والا گاؤں ہے۔اس گاؤں میں زیادہ تر کچے مکانات ہیں ۔معدودے چند پختہ مکان ہیں۔اس گاؤں میں 200کے قریب مکانات ہیں جس میں نصف آبادی آدی واسیوں کی ہے۔
بقیہ آبادی ہندو اور مسلمانوں کے درمیان برابر منقسم ہے۔اس گاؤں کی آبادی بیشتر مکیں غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔اس لیے وہ درگا پوجاکا پنڈال بنانے کے بجائے قریب کے گاؤں میں جاکر درگا پوجا کا اہتمام کرتے تھے۔مگر 2012میں بی جے پی کے ایک مقامی لیڈر کوشش کرکے پوجا پنڈال بنانے کا فیصلہ کیا مگر انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی کیوں کہ اس گاؤں میں مسلمانوں کوبھی قربانی کرنے کی اجازت نہیں اس لیے انتظامیہ نے امن و امان کے مدنظر ہندؤں کو بھی پوجا پنڈال بنانے کی اجازت نہیں دی۔مگر گزشتہ ایک دو سال سے ہر سال درگا پوجا کے موقع پر اس خبر کو نشر کرکے بنگال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں اس مسئلے کو قومی میڈیا نام نہاد سیکولرازم ، ووٹ بینک کی سیاست اور دداری جیسے سانحہ سے موازنہ کرکے پورے معاملے کو الگ رخ دینے کی کوشش کررہی ہے وہیں بنگالی میڈیا کا کردار اس معاملے میں مثبت ہے ۔بنگال کے سب سے بڑے اخبار نے حال ہی خبر شایع کی تھی اس گاؤں میں نہ مسلمانوں کو قربانی کی اجازت ہے اور نہ ہی ہندؤں کو پنڈال لگانے کی ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا