English   /   Kannada   /   Nawayathi

دہلی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں 4 سال کی بچی سے چھیڑ چھاڑ، مقدمہ درج(مزید اہم ترین خبریں )

share with us

پھر والدین کے پوچھنے پر اس واردات کے بارے میں انہیں پتہ چلا اس کے بعد بچی کے والدین اسے لے کر پہلے پرائیویٹ اسپتال لے گئے۔ وہاں انہوں نے پولیس میں جانے کو کہا تب وکاس پوری تھانہ بچی کے والدین پہنچے، جس کے بعد میڈیکل کے لئے دین دیال اسپتال لے جایا گیا جہاں چھیڑ چھاڑ(ریپ نہیں) کی بات سامنے آئی۔پولیس کو دیئے بیان میں بچی نے بتایا کہ ایک مونچھوں والے انکل نے باتھ روم میں اس سے غلط حرکت کی ہے۔ اس کے بعد پولیس نے پوكسو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا اور اسکول میں پہنچ کر پوچھ گچھ شروع کی۔ وہیں، اسکول مینجمنٹ کا کہنا ہے کہ ان کو پولیس کی جانب سے اس بات کی اطلاع ملی ہے اور وہ اپنی طرف سے ملزم کو پکڑنے کے لئے مکمل مدد کریں گے۔


ریاست آسام میں مظاہرین اور پولیس کی جھڑپیں،2افراد ہلاک،40زخمی

نئی دہلی۔19ستمبر(فکروخبر/ذرائع ) ریاست آسام میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب مقامی پولیس نے کازی رانگا نیشنل پارک کا علاقہ خالی کرانے کے لئے کارروائی کی۔ پولیس کے اس اقدام پر مظاہرین مشتعل ہوگئے ، پتھراو بھی کیا گیا، پولیس نے ہجوم پر قابو پانے کیلئے شیلنگ کی ، ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔جھڑپوں میں دو افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ چالیس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔


آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے دہشت گردانہ حملے کی شدت سے مذمت کی 

بجنور میں نہتے کمزورمسلمانوں کی ہلاکتیں اور بچوں و خواتین سمیت ۱۸ افراد کا زخمی ہونا قابل مذمت ہے۔مشاورت

نئی دہلی۔19ستمبر(فکروخبر/ذرائع) آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے جموں ریجن کے اُری فوجی چھاونی پر جیش محمد کے دہشت گردانہ حملے کی شدت سے مذمت کرتی ہے۔ حملے میں شہید ہوئے فوجیوں کے خاندانوں کے غم کی شریک محسوس کرتے ہوئے مشاورت سمجھتی ہے کہ یہ بزدلانہ حملہ ہمارے ملک کو جھکا نہیں سکتا۔ گزشتہ ۲۰ سالوں میں ہوئے حملوں کے مقابلے اس واقعہ میں زیادہ جانیں گئیں ہیں۔
ایسے وقت میں ضرور ت ہے کہ ایسے حملہ آوروں کو بخشا نہ جائے۔ لیکن جو لوگ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ملکوں کو جنگ میں جھونکنے کی رائے دے رہے ہیں وہ ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ مذموم سازشوں کے جال میں نہ الجھا دئے جائیں جبکہ کشمیر کا مسئلہ تقریباً ۷۰ سالوں سے حل طلب رہا ہے۔مشاورت سمجھتی ہے کہ حالیہ مہینوں میں ہوئے احتجاج میں تقریباً ۸۰ افراد کی جانیں گئیں ہیں اور پیلٹ گن کی فائرنگ سے سیکڑوں کشمیریوں کی آنکھوں کی بینائی بھی بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ ساری دنیا میں ممنوع پیلٹ بندوقوں کے استعمال نے کشمیریوں کو زندہ شہیدوں کی شکل میں زخمی اور نابینا افراد دئے ہیں۔ ہماری حکومت کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ کو جس حکیمانہ انداز سے برتنا چاہئے تھا، مشاورت سمجھتی ہے کہ مرکزی حکومت طریقہ کار کا از سر نو جائزہ لے اور اپنے طریقہ کار سے اہل کشمیر کو اعتماد میں لے۔
ملکی سیاسی صورت حال
مشاورت سمجھتی ہے کہ ہمارا ملک جس مشکل اور تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہا ہے اور فرقہ وارانہ طاقتیں ملک کی سیکولر اور جمہوری قدروں کو تہ و بالا کرنے پر مصر ہیں۔ مودی جی کی حکومت آنے سے فرقہ پرستوں میں شدت آئی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ ہمارے ملک بھارت کو سیکولر جمہوری نہ رکھتے ہوئے ملک کو ہندوتوادی ملک بنا لیں۔اپنے ہندوتوادی ایجنڈہ کے نفاذ کے لئے فرقہ پرست و جارح طاقتیں ملک کی انصاف پسند آراکا گلہ گھونٹ دینا چاہتے ہیں ۔ ملک کے کمزور طبقات ، دلتوں ، مسلمانوں اور عیسائیوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔
گجرات ، راجستھان ،دہلی ، مدھیہ پردیش ، کرناٹک و دیگر ریاستوں میں گؤکشی کے نام پر حملے کئے جارہے ہیں ۔ مذہب کے استحصالی گؤ رکشک قانون و دستور کو بالاء طاق رکھ کر دلتوں اور مسلمانوں پر متواتر حملے کررہے ہیں ۔ ان کی جان مال ، عزت و آبرو سب داؤ پر لگی ہے۔ مشاورت اس قسم کے غیر انسانی اور وحشیانہ طرز عمل کی مذمت کرتی ہے اور حکومت کی جانب سے ان کی گرفت نہ کرنے کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ اس طرح کے مسائل قانونی بالا دستی کو متاثر کرتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں فرقہ وارانہ طاقتیں فسادات کو ہوا دے رہی ہیں ۔ مسلمانوں اور دلتوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔میوات (ہریانہ) اور بجنور (یوپی) میں معصوم افراد کا قتل اور ان کی عورتوں کی کھلے عام عصمت دری بلکہ مسلم لڑکی کو چھیڑے جانے کی شکایت پر ہجوم کا اکٹھا ہو کر فائرنگ کا دہانہ کھول دینا اور بجنور میں نہتے کمزورمسلمانوں کی ہلاکتیں اور بچوں و خواتین سمیت ۱۸ افراد کا زخمی ہوناقابل مذمت ہے۔مشاورت کا یک وفد کے دورے پر معلوم ہوا کہ فسادیوں کے ساتھ نہ صرف ان کا پردھان بلکہ پولیس بھی شریک تھی ۔مشاورت مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت اس طرح متواتر ہوئے ان حملوں کا شدت سے نوٹس لے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دے۔وزیر اعلیٰ ہریانہ کے غیر ذمہ دارانہ اور فرقہ وارانہ بیان کی بھی مشاورت مذمت کرتی ہیکہ ایک وزیر اعلیٰ اتنی پست سوچ کا اظہار کر سکتا ہے۔انہیں اپنے بیان کو واپس لینا چاہئے اور متاثرین کو انصاف دیتے ہوئے معافی مانگنی چاہئے اور گؤ کشی کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہے۔

خواتین ، سیاسی با اختیاری کے دعوے کے باوجود سماجی طور پر پسماندہ

اُردو یونیورسٹی میں دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح۔ پروفیسر سشیلا کوشک اور ڈاکٹر اسلم پرویز کی مخاطبت

حیدرآباد، 19 ؍ ستمبر (فکروخبر/ذرائع) ہندوستان میں خواتین ہوسکتا ہے کہ سیاسی طور پر با اختیار بن گئی ہوں لیکن سماجی طور پر وہ ہنوز پسماندہہیں۔ صنف نازک کو جب تک سماجی طور پر مساوات حاصل نہیں ہوتیں تب تک سیاسی، معاشی اور تعلیمی طاقت کے حصول کا نعرہ بے معنی ہے۔ پروفیسر سشیلا کوشک، ممتاز سماجی سائنسداں اور ملک میں مطالعاتِ نسواں کی ماہر، نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ وہ دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’’با اختیاری تجدید فکر: ہندوستان میں صنف اور ترقی‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی اظہار خیال کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر اردو یونیورسٹی کی نے صدارت کی۔ یونیورسٹی کا شعبۂ تعلیمات نسواں اس دو روزہ سمینار کا اہتمام اسوسئیشن آف انڈین یونیورسٹیز، نئی دہلی کے تعاون سے کر رہا ہے۔ پروفیسر کوشک نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران مطالعاتِ نسواں کو بری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے جبکہ خواتین کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا خواتین کے ساتھ انصاف ہوچکا۔ کیا ان کے مسائل حل ہوچکے۔ خواتین کی با اختیاری پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ راجیو گاندھی کے دورِ حکومت میں پنچایت راج دستوری ترمیمی بل منظور کرتے ہوئے اس سمت میں ایک اہم قدم اٹھایا گیا تھا مگر کیا صرف مجالس مقامی میں خواتین کے لیے تحفظات سے ان کے مسائل حل ہوگئے۔ قانونی پنچایت کیا آج کھاپ پنچایت پر فوقیت رکھتی ہے؟ ممتاز سماجی سائنسداں نے کہا کہ صنفی با اختیاری کا مطلب مردوں کے خلاف لڑائی نہیں بلکہ مردانہ تسلط کی ذہنیت کے خلاف جدو جہد ہے۔ 

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم صرف قدرتی نظام میں ممکن ہے۔ اس سلسلہ میں نباتیاتی عمل کی مثال پیش کی۔ سماجی اشاریوں میں بہتری کے باوجود اخلاقی اقدار میں بتدریج انحطاط آیا ہے۔ ہمیں اقدار پر مبنی نظام کو واپس لانے کی ضرورت ہے جس کی ہر مذہب تعلیم دیتا ہے۔ تاہم اس نظام کے احیاء کے لیے منظم کوشش کا نہ ہونا افسوسناک ہے۔ خواتین کے مساویانہ رتبہ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز نے بتایا کہ قرآن نے بیوی کے لیے ’زوج‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب جوڑا ہے اور جوڑا مساوی ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی تحریک خواتین کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ماں اپنی بیٹی کو تربیت دے کہ وہ کوئی ’’شئے‘‘ نہیں ہے اور بیٹے کو عورت کا احترام سکھائے۔ انصاف سے انصاف پیدا ہوتا اور نا انصافی نا انصافی کا موجب بنتی ہے۔ خواتین کی با اختیاری کے لیے ہمیں اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا۔ 
افتتاحی اجلاس کے آغاز پر پروفیسر شاہدہ مرتضیٰ ، کو آرڈینیٹر سمینار و صدر شعبۂ تعلیمات نسواں نے مہمانوں کا تعارف کروایا اور سمینار کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ آزادئ نسواں کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود جدید دور میں خواتین کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ 
ڈاکٹر امریندر پانی، کنوینر سمینار (اے آئی یو) نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ صنفی امتیاز کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر افروز عالم، صدر شعبۂ سیاسیات نے کاروائی چلائی۔ ڈاکٹر پروین قمر، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ تعلیماتِ نسواں نے شکریہ ادا کیا۔ سمینار میں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ماہرین، اساتذہ اور اسکالرس شریک ہیں۔


اُردو یونیورسٹی، آئی ٹی آئی میں داخلے۔ آج آخری تاریخ

حیدرآباد، 19 ؍ ستمبر (فکروخبر/ذرائع) مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی ، انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) میں چند مخلوعہ نشستوں پر داخلے کے لیے تیسرے مرحلے کی کونسلنگ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر عرشیہ اعظم، انچارج آئی ٹی آئی، حیدرآباد کے بموجب مخلوعہ نشستوں پر داخلہ کے خواہشمند طلبہ یونیورسٹی ویب سائٹ www.manuu.ac.in سے فارم حاصل کرسکتے ہیں۔ پُر کیے ہوئے فارم داخل کرنے کی آخری تاریخ 20؍ ستمبر ہے۔ کونسلنگ، کنوینر ، ڈی ایس سی آئی ٹی آئی، حیدرآباد کی ہدایت کے مطابق 23؍ ستمبر کو 10 بجے صبح سے ہوگی۔ مزید تفصیلات کے لیے فون نمبر 040-23008413 یا 094412 50126 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔ 


اُردو یونیورسٹی میں دستکاری میلہ

حیدرآباد، 19 ؍ ستمبر (فکروخبر/ذرائع) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، مرکز برائے مطالعاتِ نسواں کے زیر اہتمام دو روزہ ’’دستکاری اشیاء کی نمائش و فروخت‘‘ کا 20 اور 21؍ ستمبر کو سمینار ہال، پہلی منزل، پالی ٹیکنیک بلڈنگ، یونیورسٹی کیمپس میں انعقاد عمل میں آرہاہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر 20؍ ستمبر، بروز منگل 11 بجے دن نمائش کا افتتاح کریں گے۔ ڈاکٹر آمنہ تحسین، ڈائرکٹر مرکز نے دلچسپی رکھنے والوں سے شرکت کی خواہش کی ہے۔ نمائش میں گھر سے کام کرنے والی خاتون ورکرس کی دستکاری اشیاء فروخت کے لیے رکھی جائیں گی۔ 


مسلم فورم نے اُری میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کی مذمت کی

فوری طور پر پاکستان میں واقع دہشت گردی کے تربیتی مراکز پر حملہ کیا جائے: ڈاکٹر جسیم محمد

علی گڑھ19؍ستمبر(فکروخبر/ذرائع) فورم فار مسلم ا سٹڈیز اینڈ اینالائسس( ایف ایم ایس اے) نے اُری ( جموں و کشمیر) میں واقع ہندوستانی فوج کے انفرنٹری رجیمنٹ ہیڈکواٹر پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں واقع دہشت گردی کے تربیتی مراکز پر حملہ کیا جائے۔ واضح ہوکہ مذکورہ دہشت گردانہ حملہ میں ہندوستانی فوج کے17جوان شہید ہوئے ہیں۔
اُری( جموں و کشمیر) میں واقع12ویں برگیڈ انفرینٹری رجمینٹ کے ہیڈ کواٹر پر خود کش دہشت گردانہ حملہ صاف طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملے سرحد پار سے ہندوستان کے خلاف منظم طور پر کئے جارہے ہیں اور ان حملوں کا طریقۂ عمل بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ واضح طور پر ان کی پشت پر پاکستان کا ہاتھ ہے۔ ان خیالات کا اظہار فورم فار مسلم اسٹڈیز اینڈ اینالائسس( ایف ایم ایس اے) کے ڈائرکٹر ڈاکٹر جسیم محمد نے مزمل منزل کامپلیکس میں واقع میڈیا سینٹر پر اُری میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہمارے بہادر جوانوں نے چار دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی لیکن ہمارے اپنے17بہادر جوان اس حملہ میں شہید ہوگئے جنہوں نے ملک کے تحفظ کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے دی۔ ایف ایم ایس اے ان جوانوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ڈاکٹر جسیم محمد نے کہا کہ ایف ایم ایس اے پہلے بھی کہہ چکی ہے کہ اس قسم کے تمام دہشت گردانہ حملے پاکستان کی جانب سے کئے جارہے ہیں اور ہمیں پاکستان میں چل رہے دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں پر براہِ راست حملہ کرکے ان کو تباہ کرنا چاہئے ورنہ اس طرح کے مذموم حملے آگے بھی جاری رہیں گے۔ ان کو روکنے کے لئے پاکستان کو منھ توڑ جواب دینا نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دورِ حاضر میں ہندوستان وزیرِ اعظم مسٹر نریندر مودی کی قیادت میں ایک عظیم اقتصادی طاقت کی شکل میں عالمی منظر نامہ پر ابھر رہا ہے اور قومی حفاظتی صلاح کار مسٹر اجیت ڈوبھال کی رہنمائی میں امن اور عدم تشدد کے ذریعہ عالمی سطح پر اپنی صورتِ حال کو بہتر بنا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ چند ممالک جن میں پاکستان بھی خصوصی طور پرشامل ہے، کو ہندوستان کی ترقی راس نہیں آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم فورم ملک میں اس قسم کے دہشت گردانہ حملوں کو برداشت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ یہ حملے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذہب اسلام امن کا حامی ہے اور خون خرابے کا سخت مخالف ہے جبکہ یہ دہشت گرد بے گناہ افراد کا خون بہا رہے ہیں۔ڈاکٹر جسیم محمد نے مطالبہ کیا کہ ہندوستان کو فوری طور پر پاکستان میں واقع دہشت گردی کے تربیتی مراکز پر حملہ کرکے انہیں تباہ کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک اور آنے والی نسلوں کے تحفظ پر غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے وزیرِ داخلہ مسٹر راج ناتھ سنگھ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے ملک کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے مسلمانوں کو بھی کھل کر پاکستان کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے اور وزیرِ اعظم مسٹر نریندر مودی کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر جسیم محمد نے کشمیری افراد خصوصی طور پر کشمیری نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کی چالوں کو سمجھیں اور اپنے روشن مستقبل کے لئے ملک کے خصوصی دھارے میں شامل ہوں۔ڈاکٹر جسیم محمد نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ فوری طور پر پاکستان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے اس پر اقتصادی پابندی عائد کرے۔ اس موقع پر ایف ایم ایس اے کے اراکین نے دہشت گردی سے ہر سطح پر لڑنے کا حلف لیا۔


حکومت کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے آپ سے دو سوال پوچھنے چاہئیں کہ پاکستان

کے ساتھ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ یہ کیا کر سکتے ہیں؟۔۔مسٹر منیش تیواری 

نئی دہلی ۔19ستمبر(فکروخبر/ذرائع )مسٹر منیش تیواری نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی میں نے کچھ ٹویٹ پڑھے ہیں، وہ ٹویٹس اور ردعمل ہماری نہیں ہیں، وہ ان بی جے پی اور این ڈی اے کے رہنماؤں کی ہیں، وزیر اعظم کے جوابات ہیں. کیونکہ ہم قومی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرتے تو آج ہم وہ نہیں کہیں گے جو یہ کہتے آئے ہیں. ہم محض وزیر اعظم جی سے دو سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم جی کیا آپ اس ملک کو یہ یقین دہانی دے سکتے ہیں کہ آج کے بعد ایسا دہشت گرد حملہ نہیں کرے گا؟کیا آپ کی حکومت کے پاس پاکستان کے تئیں کوئی پالیسی ہے اور اگر وہ پالیسی ہے تو وہ کیا ہے؟ ملک اس جاننا چاہتا ہے.جملوں سے اوپر اٹھ کر ایک سنجیدہ انداز میں اس حکومت کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے آپ سے دو سوال پوچھنے چاہئیں کہ پاکستان کے ساتھ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ یہ کیا کر سکتے ہیں؟یہ دو سنگین اور حساس سوال ایک سنجیدہ طریقے سے اس حکومت کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئیں. تاریخ اور حقیقت بہت کڑوی ہوتی ہے.اگر حکومت کا یہ دلیل صحیح ہے کہ اڑی کا حملے کو جیش محمد نے انجام دیا ہے اور ہم حکومت کی بات کو مکمل طور پر ماننے کے لئے تیار ہیں تو کیا یہ بھی آپ نوٹس میں لینا ضروری نہیں ہے کہ قندھار کا کیا کوئی حل ہو سکتا تھا، قندھار میں چھوٹنے کے بعد مسعود اظہر نے جیش محمد کی ساخت کی تھی.بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 27 مہینوں میں ایک بات بالکل صاف طور پر نکل کر آ رہی ہے کہ نہ ہی اس حکومت کی کوئی سفارت کاری ہے اور نہ ہی اس حکومت کی کوئی اسٹریٹجک پالیسی ہے.وزیر اعظم جی ہم آپ سے ایک بات کہنا چاہتے ہیں کہ "ملک کا، قوم کا اتنا بھی نہ معتیارگرائیں کہ شہ سرخیوں سے ہاتھ سے اخبار گرے".ایک سوال پر کہ حکومت کے پاس اختیار کیا ہے، مسٹر تیواری نے کہا کہ حکومت کے پاس کیا اختیار ہے، وہ سجھانا اپوزیشن کا کام نہیں ہے اور نہ ہی وہ رائے صحافتی بیانات کے ذریعے سے دی جاتی ہے. اگر حکومت اپوزیشن سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا اختیار ہے، تو جیسے ہم نے پہلے کشمیر کے تناظر میں اس بات کو کہا تھا، تو حکومت کو اپوزیشن سے پوچھنا پڑے گا. ہم یہ بات مسلسل اور مسلسل اعادہ نہیں چاہتے لیکن کچھ سال کانگریس نے بھی ملک کی حکومت چلائی ہے، تھوڑا بہت تجربہ کانگریس پارٹی کے پاس بھی ہے. اگر حکومت اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو حکومت کو اپوزیشن سے پوچھنا پڑے گا، یہ سیاست اور آداب کا تقاضہ ہے.
مسٹر تیواری نے کہا کہ یہ جو مسئلہ ہے، جس سے ہم دو چار ہیں جس کا ایک نام دہشت گردی ہے اور دوسرا نام پاکستان ہے، وہ 1947 سے لے کر بھارت کے خلاف ایک پروکسی وار لڑتا رہا ہے. آپ کو یاد ہو گا، آپ سب لوگ بہت سینئر صحافی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جب 1947 میں کشمیر میں دراندازی ہوئی تھی تب وہ بھی ارریگیولر کی طرف کرائی گئی تھی، 1965 میں جب دراندازی ہوئی جس کا نام آپریشن جبرالٹر تھا، وہ بھی ارریگیولر کی طرف کرائی گئی تھی، 1999 میں جب کارگل ہوا، تب بھی دراندازی پہلے ارریگیولر طرف کرائی گئی تھی، تو اس کی وجہ یہ ایک مسئلہ ہے جس سے ہم دو چار ہیں. اس میں بدقسمتی بات یہ ہے کہ اس کی حساسیت اور نزاکت کو نہ سمجھتے ہوئے 10 سال میں 2004 سے 2014 تک آج جو فی الحال حکومت میں بیٹھے ہیں وہ بھارت کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے، حکومت کے اوپر تانے کستے رہے، تخلیقی تعاون کی جگہ طنز کا استعمال انہوں نے کیا تو اس کی وجہ ہم تخلیقی تعاون دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر حکومت کوئی ایسی اجلاس بلاتی ہے تو ہندوستان کے مفاد کے لئے، بھارت کی
سلامتی کے لئے کانگریس ہمیشہ آگے آتی رہی ہے اور اب بھی مزید آئے گی. کشمیر میں کل جماعتی وفد گیا تھا اس کے بعد آپ سب نے دیکھا کہ کانگریس پارٹی نے کیسے تخلیقی کردار ادا کیا تھا.
مودی جی نے کہا کہ ملک کے دشمنوں کو بخشین گے نہیں، اگر جملوں سے اور باتوں، سے رد عمل اور جھوٹے وعدوں سے جو 17 جوانوں نے شہادت دی ہے ان کا اگر یہ ملک کے قرض اتار پائے تو میں اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں جو بی جے پی نے کہا، سوال یہ ہے کہ صرف جملوں سے اور ٹویٹر پر لکھنے سے کہ ہم دانت کا بدلہ جبڑے سے لیں گے، ملک کی پالیسی اور راج کی پالیسی نہیں چلتی.
حملہ چاہے فدائین ہو یا ?نوینشنل ہو، اگر ہندوستان پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا جواب حملہ آوروں کو، ان سرگناوں کو جو حکومتیں ان کی مدد کرتی ہیں ان کو ضرور ملنا چاہئے، لیکن فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ کس طرح سے وہ اس دہشت گردانہ حملے کو جواب دینا چاہتے ہیں.
اگر حکومت رسمی طور پر کانگریس پارٹی سے پوچھے گی تو ہمارا جو رائے ہے وہ ہم حکومت کے سامنے رکھیں گے، کیونکہ گزشتہ 27 ماہ میں ہم نے دیکھا کیا ہے، کبھی نواز شریف کو بلایا جاتا ہے، کبھی وزیر اعظم لاہور چلے جاتے ہیں، کبھی اوپھا میں سمجھوتہ ہو جاتا ہے، کبھی وزیر داخلہ، وزیر خارجہ اسلام آباد چلے جاتے ہیں، اس کا کوئی حل نہیں نکلتا. لہذا ہم یہ سوال مسلسل اور مسلسل اٹھاتے رہے ہیں کہ آپ پاکستان کے تئیں کوئی پالیسی ہے اور اگر کوئی پالیسی ہے تو اسے بے نقاب کیجئے، تاکہ ملک جان سکے اور جو سوال آپ نے پوچھا ہے اس کی بنیاد پر کوئی رائے دی جا سکے.
دوسرا سارک میں جانا ہے یا نہیں جانا، یہ تو حکومت کو طے کرنا ہے، اب جیسے میں نے کہا کہ وزیر اعظم بغیر بتائے لاہور چلے گئے، کیوں گئے، کس طرح گئے، اس کے پیچھے کیا کہانی تھی، کسی کو کچھ نہیں معلوم. وزیر داخلہ جی کیوں اسلام آباد چلے گئے، ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہوا، اس میں بھی سارا اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑا رہا کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ جی کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے. اب سارک میں جانا ہے یا نہیں جانا ہے یہ حکومت کو طے کرنا چاہئے. جو سارا تناظر ہے، ساری پس منظر ہے اس کو نوٹس میں لے کر حکومت کو پاکستان کے تئیں ایک پالیسی طے کرنی چاہئے اور اس پالیسی کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے کہ وزیر اعظم جی کو سارک میں جانا چاہئے یا نہیں جانا چاہئے یا سارک کا وینیو بدل کر کہیں اور کیا جائے.


اترپردیش SDPIریاستی صدر محمد کامل کی قیادت میں ایک وفد کا بجنور فساد متاثرین علاقوں کا دورہ 

بجنور۔19ستمبر(فکروخبر/ذرائع)سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کی ایک وفد نے بجنور فساد متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ۔جس میں ریاستی صدر محمد کامل ، ریاستی جنرل سکریٹری فرمان علی، ہاپوڑ ضلعی صدر نو ر حسن جوہری، مظفر نگر ضلعی صدر جوہری راشد ملک اور آل انڈیا امامس کونسل ضلعی بجنور جنرل سکریٹری قاری ناصر شامل تھے۔ وفد نے بجنور میں نجیب آباد اسپتال میں زیر علاج متاثرین سے ملاقات کی اور ان سے حالات کی جانکاری حاصل کی۔ متاثرین اور علاقے کے لوگوں نے وفد کو بتا یا کہ دو دن قبل ایک معمولی تکرار فساد کی شکل اختیار کرگئی، جس میں جاٹ طبقے کے لوگوں نے اندھا دھند چلاکر چار مسلمانوں کا قتل کردیا اورایک درجن سے زائد لوگوں کو زخمی کردیا اور مسلمانوں کے املاک کو آگ لگایا گیا۔ فساد کے دوران سخت زخمی افراد کو بجنورضلع اسپتال میں داخل کیا گیا ہے جہاں وہ زیر علاج ہیں۔ وفد کے تحقیق کے بعد یہ سچائی سامنے آئی ہے کہ فساد متاثرہ علاقے میں پولیس کی موجودگی میں حملہ آور الگ الگ علاقوں سے آئے تھے اور درختوں پر چڑھ کر فائرنگ کررہے تھے ساتھ ہی کچھ لوگ مسلمانوں کے املاک کو آگ لگا رہے تھے۔ حملہ آور آس پاس کے گاؤں سے آکر جمع ہوئے تھے جن کی تعداد 100سے زائد بتائی گئی ہے۔ پولیس کی لاپرواہی کی وجہ سے معمولی لڑائی فساد میں تبدیل ہوگئی کیونکہ اترپردیش حکومت اس سے قبل ہوئے فسادات میں ملزمین کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی اور ملزمین کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جس کے مدنظر ایک طبقے کے شر پسند عناصر کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے قانون کو طاق پر رکھ کر بڑے پیمانے پرمسلمانوں پر تشدد کیا ہے۔ اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی کے ریاستی صدر محمد کامل کی قیادت میں وفدنے بجنور ضلع کے ایڈیشنل ایس پی ، ایم ایم بیگ سے ملاقات کی اورفساد میں ملوث مجرمین کوفوری طور پر گرفتار کرنے کی مانگ کی۔ اس کے علاوہ فساد میں زخمی اور زیر علاج افراد سے اسپتال میں ؂ ملاقات کرکے ان کو ہر ممکن مدد کا یقین دلا یا۔


’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے‘‘ کا انگریزی ترجمہ سید محمود احمد کریمی کا تاریخی کارنامہ:طرزیؔ /شاکرڈاکٹر منصور خوشتر

دربھنگہ۔19ستمبر(فکروخبر/ذرائع/عرفان احمد پیدل)المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی دفتر دمری منزل(ڈاکٹر آفتاب حسین کمپلکس، سبھاش چوک، دربھنگہ) میں پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کی صدارت میں پروفیسرمناظر عاشق ہرگانوی صاحب کی کتاب ’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے‘‘ کا انگریزی ترجمہ ’’انکومیم ٹو ہولی پروفیٹ‘‘ جس کا ترجمہ سید محمود احمد کریمی نے کیا ہے کا رسم اجراء عمل میں آیا۔ اس موقع پر کئی ادیب اور دانشورحضرات تشریف فرما تھے۔پروگرام کی نظامت المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر نے کیا۔انہوں نے پروگرام کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ سید محمود احمد کریمی صاحب نے ’’انکومیم تو ہولی پروفٹ‘‘ کے نام سے ’’ہر سانس محمد پڑھتی کا ترجمہ کرکے اردو ادب کو انگریزی زبان کی چاشنی عطا کی ہے۔ اس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس سلسلہ میں مختصر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عالمگیر شبنم صدر انجمن ترقئ اردونے فرمایا ’’محمود احمد کریمی نے ’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے کہ انگریزی میں جو ترجمہ کیا ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس کو ہو بہو ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ میر امن نے جس طرح باغ و بہار کی شکل میں ’’قصہ چہار درویش ‘‘ یا نوطرز مرصع کی طرح مفاہیم کا لفظی شکل عطا کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ترجمہ نہ ہوکر ایک نئی تخلیق کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پروفیسر شاکر خلیق (سابق صدر شعبۂ اردو، ایل این ایم یو، دربھنگہ) نے جوش ملیح آباد ی کی کتاب ’’یادوں کی برات‘‘ سے ایک مختصر اقباس پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا یہ دعوی ہے کہ شاعری ایک ایسا جادو ہے جس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شاعری آبگینہ ہے اور ترجمہ گھن۔ شاعری شیشہ ہے اور ترجمہ پتھر۔ ‘‘آگے انہوں نے پھر فرمایا’’سید محمود احمد کریمی میرے مخلص بزرگوں میں ہیں جن سے میرے تعلقات ۲۵۔۳۰ سال پرانے ہیں۔ انہوں نے مناظر صاحب کی کتاب ’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے اسے انگریزی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ انگریزی ترجمہ میں دور دور تک ان کا ثانی نہیں۔ اردو ترجمہ کے لئے خوبصورت اور موضوع انگریزی الفاظ کا استعمال کریمی صاحب کی ایک اہم خوبی ہے۔ ‘‘اس موقع پر صفی الرحمن راعین (سابق سینئر انالسٹ) نے اپنی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا’’پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے روحانی احساسات اور نورانی نظریات سے لبریز نعتیہ مجموعہ کا انگریزی ترجمہ ’’انکومیم ٹو ہولی پروفٹ‘‘ہے۔ اردو زبان میں ’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے‘‘ کی اشاعت کے بعد اس کا انگریزی ترجمہ ’’انکومیم ٹو ہولی پروفٹ‘‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ ’’ہر سانس محمدؐ پڑھتی ہے‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ محمود احمد کریمی نے کیا ہے جو پیغمبر پور کے علمی و دینی خانوادہ الحاج عزیز احمد کے چشم و چراغ ہیں۔ صدر جمہوریہ ہند سے ایوارڈ یافتہ عالمی شہرت یافتہ شاعرپروفیسر عبدالمنان طرزی نے اس موقع پر اپنی مختصر گفتگو میں کہا کہ ’’میرے دیرینہ تعلقات سید محمود احمد کریمی صاحب سے گذشتہ پچاس سالوں سے ہیں۔ انگریزی اور اردو زبان کے ساتھ ساتھ وہ فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کے سیکڑوں فارسی اشعار انہیں زبانی یاد ہیں۔ فارسی کے اتنے زیادہ اشعار کا یاد ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فارسی زبان وادب پر بھی ان کی اچھی گرفت ہے۔ انہوں نے کریمی صاحب کو اس ترجمہ کے لئے مبارک باد پیش کیا۔ نوجوان ناقد ڈاکٹر احسان عالم نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ ’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے‘‘ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی ایک خوبصورت تخلیق ہے۔سید محمود احمد کریمی صاحب نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ "Encomium to Holy Prophet"کے نام سے کیاہے۔ ایم ۔ اے کریمی صاحب نے نعت کے اس مجموعہ کا انگریزی میں ترجمہ کرکے ترجمہ نگاری کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ ’’انکومیم ٹو ہولی پروفیٹ‘‘وہ کتاب ہے جسے سید محمود احمد کریمی صاحب نے ٹرانسلیٹ کیا ہے۔ سید محمود احمد کریمی صاحب بھی دل و ذہن میں ایک اثر چھوڑنے والے شخص ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ وہ انگریزی زبان وادب کے ماہر ہیں ۔جن اشعار کا وہ ترجمہ پیش کرتے ہیں اس میں ایک منفرد رنگ بھر دیتے ہیں۔‘‘حیدر وارثی(سابق پرنسپل ، شفیع مسلم ہائی اسکول، دربھنگہ) نے بھی سید محمود احمد کریمی صاحب سے دیرینہ تعلقات ہونے کی بات کہی اور فرمایا کہ’’ان کے ترجمے کافی متاثر کرنے والے ہیں۔ ہر اشعار کا ترجمہ کافی سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ ‘‘کمپوزنگ کی چند غلطیوں کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے ’’سید محمود احمد کریمی کے نام ‘‘عنوان سے ایک نظم پڑھی۔ کتاب کے مترجم سید محمود احمد کریمی نے کہا کہ اس کتاب کے ترجمے میں میں نے اس بات کا مکمل خیال رکھا کہ موضوع الفاظ کا استعمال ہو۔ کہیں کہیں ایک شعر کے ترجمہ میں پورا دن گزر جاتا اور کبھی کبھی ایک شعر کا ترجمہ بھی نہیں ہوپاتا۔ سینئر صحافی فردوس علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ’’مناظر عاشق ہرگانوی ایک ایسا نام ہے جس کو میں طالب علمی کے زمانے سے پڑھتا آرہا ہوں۔ نظم ، غزل، آزاد غزل، ہائیکو، تنقیدی مضامین اورتبصرے کثرت سے ہندوستان کے مختلف اخبارات میں نظر سے گزرتے رہے ہیں۔ مبارک باد کے مستحق ہیں سید محمود احمد کریمی جنہوں نے کم مدت میں ہرگانوی صاحب کی کتاب نعمت کا مجموعہ ’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے ‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ کریمی صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ اسکرپٹ کا ترجمہ نہیں کرتے بلکہ قواعد کی روشنی میں اپنا ترجمہ پیش کرتے ہیں ۔ اس میں وہ کامیاب ہیں۔ ڈاکٹر عقیل صدیقی نے کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے محمود کریمی کو مبارک باد دیا۔ اس کے علاوہ وہ شریک لوگوں میں ڈاکٹر آفتاب حسین ، سید ارشد منہاج، محمد رحمت اللہ ، رفیع نشتر ، وسیم اختر ، حبیب اصغر اور محمد شمشاد وغیرہ تشریف فرما تھے۔ حاضرین محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر منصور خوشتر نے پروگرام کا اختتام کیا۔ 


بہار: مجرمانہ معاملات کے ملزم کا دن دہاڑے قتل

سیوان۔ 19 ستمبر(فکروخبر/ذرائع)بہار میں سیوان ضلع کے شہر تھانہ علاقہ میں پیر کو بے خوف مجرموں نے مختلف فوجداری مقدمات کے ملزم کا دن دہاڑے گولی مار کر قتل کردیا. اس پر قتل، لوٹ، اغوا کے کئی معاملہ درج ہیں. پولیس کے مطابق، جرائم پیشہ افراد نے پیر کو اندر ڑھالا اووربرج کے پاس بدنام زمانہ جتندر عرف جرلہوا کو گولی مار کر قتل کردیا. قتل کی وجوہات کا ابھی پتہ نہیں چل پایا ہے. سیوان کے اسسٹنٹ پولیس سپرنٹنڈنٹ اروند کمار گپتا نے بتایا کہ مرحوم پر ضلع کے مختلف تھانہ علاقوں میں قتل، لوٹ، اغوا کے کئی معاملہ درج ہیں اور 15 دن پہلے ہی ضمانت پر جیل سے چھوٹا ہے. انہوں نے کہا کہ پولیس نے لاش کو اپنے قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے مقامی ہسپتال بھیج دیا ہے اور پورے معاملہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے. پولیس نے قتل کی وجہ کو لے کر مجرمانہ گروہوں کے درمیان باہمی رنجش کا خدشہ ظاہر کیا ہے.

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا