English   /   Kannada   /   Nawayathi

بکتا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

share with us

سریش والا صاحب نے تو نہیں کہا لیکن سب جانتے ہیں کہ جب اجلاس ہورہا ہو تو کوئی بھی صدر بند کمرے میں اکیلے ناشتہ نہیں کرتے اُن کے ساتھ بورڈ کے دوسرے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں اور میزبانوں میں سے بھی کچھ حضرات۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ متعدد افراد سے اُن کی ملاقات ہوئی اور سب نے ان کا کھلے دل سے استقبال کیا۔
اجلاس کسی بھی پارٹی کا ہو اُس کے خصوصی اجلاس میں صرف بورڈ کے عہدیدار اور ارکان شریک ہوتے ہیں یا ایسے چند حضرات جنہیں مدعو کیا جائے۔ ظفر صاحب نہ رکن ہیں نہ انہیں مدعو کیا گیا تھا وہ اپنے طور پر شاید اس لئے گئے ہوں گے کہ وہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے چانسلر ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی نگاہوں میں اُن کے وفادار۔ اسی لئے انہیں توقع ہوگی کہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا۔ ان کا خود بیان ہے کہ جب خصوصی اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے گئے تو مائک سے اعلان ہوا کہ کارروائی شروع ہونے والی ہے جو حضرات بورڈ کے رُکن یا مدعو نہ ہوں وہ باہر تشریف لے جائیں۔ اس اعلان کے بعد ظفر سریش والا صاحب باہر چلے گئے۔ ہم نے ٹی وی پر خود سنا کہ بورڈ کے منتظمین نے انہیں بے عزت کرکے نکالا اور یہ بھی کہ یہ اسلامی تعلیمات اور مذہبی روایات کے خلاف ہے۔ انڈیا ٹی وی کے مالک اور ایڈیٹر رجت شرما شری مودی کے ایسے ہی وفادار ہیں جیسے ظفر سریش والا انہوں نے بار بار بے عزت کیا اور نکالا کا ڈھول بجایا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ مودی کے تھانے میں رپٹ لکھوائی کہ کانگریسی مسلمانوں نے آپ کے ایک وفادار مسلمان کو ذلیل کرکے نکال دیا۔
ظفر صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی مسلمانوں کے پاس آکر پناہ مانگے تو اسلام کا حکم ہے کہ اسے پناہ دی جائے۔ ایک یونیورسٹی کا چانسلر وہ بھی مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کا کیا اسے کسی تنظیم کے خصوصی اجلاس میں بن بلائے جانا چاہئے؟ اور کیا وہ بی جے پی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں مودی جی کے وفادار ہونے کے زعم میں کبھی گئے ہیں؟ یا خود ان کی یونیورسٹی کا اگر بورڈ ہو یا ایگزیکٹیو کمیٹی ہو اُس کے دروازے ہر اُردو والے کے لے لاکھوں دیئے جاتے ہیں؟ ظفر صاحب چانسلر ہیں جو ایک اعزازی عہدہ ہوتا ہے وائس چانسلر نہیں جو انتظامی منصب ہے۔ اسی لئے انہیں یہ خیال ہوا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے کسی بھی جلسے کی مجلس منتظمہ میں جاسکتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لئے جائیں گے۔
ہم نے سریش والا صاحب کو سب سے پہلے رجت شرما کے پروگرام آپ کی عدالت میں دیکھا تھا وہ وہاں اپنی بے پردہ بیگم کے ساتھ رجت شرما کے سوالوں کے جواب میں مودی کی قصیدہ خوانی کررہے تھے اُن کے منھ سے جب ہم نے سنا کہ احمد آباد میں سب سے بھیانک فساد 1969 ء میں ہوا تھا جس میں ہزاروں مسلمان قتل کردیئے گئے تھے اس وقت وہاں کانگریس کی حکومت تھی اور مادھو سنگھ سولنکی وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2002 ء کا فساد تو کچھ بھی نہیں تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سریش والا صاحب کی پیدائش کس سنہ کی ہے؟ دیکھنے میں وہ یا اُن کی بیگم صاحبہ کوئی بھی 45 سال سے زیادہ کا نہیں معلوم ہوتا۔ اور 1969 ء کے فساد کو 45 سال ہوچکے ہیں اگر وہ 55 برس کے بھی ہوں تب بھی دس برس کا بچہ اور پانچ برس کی بچی کسی فساد کی تفصیل نہیں بتا سکتے ظفر صاحب جس فساد کا ذکر کررہے ہیں وہ جے بھارت کلاتھ مل سے شروع ہوا تھا جہاں صرف مل میں کام کرنے والے تھے اس میں ہندو بھی مرے تھے اور مسلمان بھی۔ اس کے بعد جن سنگھ اسے شہر میں لے آئی اور مسلمانوں کا کافی جانی نقصان بھی ہوا اور مالی بھی۔ ہم اس فساد کے صرف پانچ دن کے بعد جبکہ چپہ چپہ پر کرفیو لگا ہوا تھا مرکزی وزیر یونس سلیم صاحب، بدرالدین طیب جی، مفتی عتیق الرحمن صاحب اور دہلی کے چند بڑے تاجروں کے ساتھ احمد آباد گئے تھے اس لئے کہ ہمارے بہت سے دور اور قریب کے عزیز اس مل میں کام کررہے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے ہمیں ایک جیپ دی تھی جس میں چار مسلح پولیس والے بھی تھے تاکہ ہم مل کالونی میں جاکر اُن کی حالت معلوم کرسکیں۔ وہ فساد 2002 ء کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اور ظفر صاحب کے بیان اور اُن کی بیگم کی تائید کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کتنے بڑے مسلمان ہیں؟
اسے اتفاق کہیں یا سازش کہ انہیں صہیب قاسمی نام کے ایک مولوی صاحب بھی مل گئے جو کسی جماعت علماء کے صدر ہیں جن کا نام ہم نے پہلی بار سنا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ بھی بہت سے مولویوں کی طرح لائن میں لگے ہوں کہ راجیہ سبھا کا تاج انہیں بھی مل جائے۔ انہوں نے بھی سریش والا صاحب کے ساتھ ہونے والے اس واقعہ کو مبینہ بدسلوکی اور اسے اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کے منافی قرار دیا ہے۔ مولوی صاحب اپنے کو قاسمی لکھتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں پڑھا ہوگا۔ کیا انہوں نے کبھی دیکھا ہے کہ دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں کوئی بڑے سے بڑا عہدے والا مسلمان بن بلائے جادھمکا ہو؟ وہ اسلامی تعلیمات کا سبق انہیں پڑھا رہے ہیں جن کے شاگردوں کے سامنے زانوئے تلمذّ طے کرکے وہ مولوی صہیب بنے ہیں؟ انہوں نے ہی شری مودی کو خوش کرنے کے لے بورڈ کو کانگریس سے وابستہ کردیا جبکہ بورڈ کے بنانے والوں میں سے کوئی ایک بھی کبھی کانگریسی نہیں رہا اور جب بورڈ بن گیا اس وقت سے اب تک اس کا کوئی صدر کانگریس سے متعلق نہ تھا نہ ہے اب یہ مولوی صاحب کی روٹی روزی اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ پورے بورڈ کو اس مری ہوئی کانگریس سے جوڑ دیں جو برسوں سسک سسک کر مری ہے۔
بھگوارنگ کے مولوی صاحب نے حکم دیا ہے کہ یا تو بورڈ سے کانگریسیوں کو ہٹایا جائے یا دیگر سیاسی پارٹیوں (بی جے پی) کے مولویوں اور لوگوں کو بھی لیا جائے یعنی مولوی صہیب کو۔ جناب ظفر سریش والا صاحب کو جب ہم نے آپ کی عدالت میں جھوٹ بولتے اور مودی بھائی کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہوئے دیکھا تھا اسی وقت سمجھ لیا تھا کہ وہ بھی ان میں سے ایک ہیں جو ہیں تو بی جے پی میں مگر وہ مسلمان چہرے کہے جاتے ہیں۔ اور وہ ہندوستانی ہونے کے باوجود یوروپ کے مسلمانوں جیسے لگتے ہیں کہ سوٹ بھی ہے ٹائی بھی ہے ننگے سر بھی ہین اور شرعی داڑھی بھی ہے۔ بیگم صاحبہ کو بھی ساتھ رکھتے ہیں مگر اس وقت انہیں اسلامی تعلیم کی کوئی بات یاد نہیں آتی۔ اس لئے کہ انہیں ایک مولوی صہیب قاسمی صاحب کی حمایت مل گئی ہے جنہوں نے اتنی سی بات کو غیرممبر اور غیرمدعو ظفر سریش والا صاحب کا نام لئے بغیر یہ کیوں کہا کہ جو ممبر یا مدعو نہ ہوں وہ برائے کرم باہرتشریف لے جائیں۔ اسے مولوی صاحب نے مودی مارکہ اسلامی تعلیمات کے خلاف کہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ۔ افسوس کہ دوسری قومیں، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق کیا رائے قائم کریں گی؟ گویا جیسے بی جے پی کی منتظمہ کی میٹنگ ہو، آر ایس ایس کے پرچارکوں کا مشورہ ہو سپا اور بی ایس پی کی میٹنگ ہو، اس میں سریش والا اور مولوی صہیب جیسے بے دھڑک چلے جاتے ہیں ایسے ہی ہر کسی کو بورڈ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کی اجازت ہونا چاہئے؟ اور کسی کے متعلق تو ہم نہیں کہتے مگر ظفر صاحب کے ایسے مسلمان ہونے پر اور مولوی صہیب کے قاسمی ہونے پر ہمیں شرم آرہی ہے کہ مسلمان کہے جانے والے اتنے بے شعور، کم عقلی اور گھٹیا سوچ والے کو مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کا چانسلر بنا دیا گیا اور صہیب نام کے کسی طالب علم کو قاسمی لکھنے کی اجازت دے دی گئی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا