از: شریک غم: محمد دانش شنگیٹی
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
تمام رشتہ دار، دوست، احباب، اساتذہ وطلباء، مخلصین و محبین اور مشفق والدین بھی مایوس نہیں ہوئے تھے،
سبھوں کو اللہ کے فضل اور اس کی بے پناہ رحمتوں سے بھرپور امید تھی کہ جس اللہ نے ہمارے بھائی کو اس آزمائش میں مبتلا کیا ہے وہی اللہ اس آزمائش کو جلد سے جلد ختم فرما کر ہمارے بھائی کو صحت و تندرستی عطا فرمائیں گے؛لیکن آہ! کسے پتہ تھا کہ اسی آزمائش میں وہ اپنی مختصر سی حیات مستعار کی ایام گزار ہم سے رخصت ہو جائے گا، اور کون جانتا تھا کہ یہ نوخیز کلی کھل تو سکے گی لیکن مسکرا نہ سکے گی!
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
وہ اپنے متعینہ ایام گزار کر ہمیشہ ہمیش کی زندگی کی طرف منتقل ہوگیا۔
عزیز دوست سید نقیب سے خصوصی تعلق ہونے کی وجہ سے علالت کی خبر کے بعد دھچکا لگا ہی تھا،لیکن اللہ کی رحمت سے قوی امید تھی کہ وہ جلد ہی صحت یاب ہو کر گھر لوٹے گا، لیکن انتقال کی خبر سے حواس گم ہو گئے، دل و دماغ نے ساتھ چھوڑ دیا، خشک آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں امڈ پڑا، ساتھ گزارے ہوئے ایام کی یادیں ذہن میں گردش کرنے لگیں ۔
اس کی شرارتیں،اس کے چلنے کا نرالا انداز ،اس کی ساتھیوں کے ساتھ ہلکی پھلکی نوک جھونک، درجے میں کبھی دیر سے پہنچنے پر حاضری لگانے کے لئے استاد کو منانا، چہرہ جیسے چودھویں کا چاند، ہنس مکھ، خوش مزاج، چلبلا!
ہر کسی کے ساتھ خندہ جبینی سے ملنے والا، چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوشیاں ڈھونڈنے والا، ظاہری و باطنی عداوتوں سے کوسوں دور، دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والا، اپنے والدین کا اکلوتا اور لاڈلا، اور اپنے ساتھیوں کا چہیتا!
ہر تعلق والے کا غمگین ہونا فطری بات ہے؛لیکن ہمارا رویہ وہی ہونا چاہیے جو اللہ کے نبی ﷺ کا اپنے چھوٹے بچے کے انتقال کے وقت تھا ۔ہم بھی یہی کہیں گے کہ
(العيون تدمع والقلوب تحزن ولكن ما نقول إلا ما يرضي ربنا۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
وإنا بفراقك يا نقيب لمحزونون).
اپنے ساتھیوں کو اور پوری دنیا کو یہ پیغام دے گیا کہ آج میرا وقت موعود آگیا، کل کو تمہارا بھی آئے گا !
اسی لئے موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری کر لو، پھر موقع ہاتھ آئے نہ آۓ، اور یہ مثل صادق آئے کہ
اب پچھتائے کیا ہوت،جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
آنے والی کس سے ٹالی جائے گی
جان ٹھہری جانے والی جائے گی
روح رگ رگ سے نگالی جائے گی
ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے
جواب دیں