English   /   Kannada   /   Nawayathi

بچوں کے والدین سے چند صاف صاف باتیں ۔۔۔

share with us


از قلم: محمد حارث بن ابراہیم اکرمی ندوی

اولاد اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ساتھ ہی ساتھ والدین کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی امانت بھی ہے، جس امانت کے بارے میں بروز محشر اللہ سوال کرے گا کہ ہم نے آپ کو اولاد جیسی عظیم نعمت سے نوازا تھا آپ نے ان کا حق کہاں تک پورا کیا، آپ نے ان کی کس طرح تربیت کی؟
مگر آج کل اکثر دیکھا جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں، جس طرح صحیح اور اسلامی نہج پر ان کی تربیت کرنی چاہیے اس طرح کی تربیت نہیں ہوتی، جس کے نتائج اتنے خطرناک نکلتے ہیں کہ اس کو سن کر پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے، وہ بچےجوانی کے نشے میں اتنے مست ہوتے ہیں کہ انہیں نہ تو اپنی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی گھر، خاندان اور اہلیان شہر کی۔
والدین پر ضروری ہے کہ اپنے بچوں پر کڑی نگاہ رکھیں، ان کی ہر نقل وحرکت (activity) پر آپ کی نگاہ ہو کہ کس کے ساتھ رہتے ہیں، کہاں جاتے ہیں، آپ اپنے بچوں کے بارے میں ہرگز مطمئن نہ ہوں کہ اچھی جگہ پر ہیں، اس لیے کہ جس طرح کے واقعات سننے میں آ رہے ہیں بہت پریشان کن ہیں، خاص کر میں ان والدین سے کہنا چاہتا ہوں جو اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم کے چکر میں اپنے علاقے سے دور بھیجتے ہیں اور وہاں جاکر آپ کے بچے کیا کیا کارنامے انجام دیتے ہیں بس میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اللہ ہی ان کا محافظ ہو۔۔
والدین کی یہ ذمہ داری ضرور بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے اچھی تعلیم کا انتظام ضرور کریں مگر یہ کیسی تعلیم ہے جو اسے اسلام سے دور کر رہی ہے ؟ یہ کیسی تعلیم ہے کہ ہمارے بچے ارتداد کی طرف بڑھ رہے ہیں ؟ یہ کیسی تعلیم کہ آپ کے اپنے بچے کو کنٹرول کوئی اور کر رہا ہے ، یہ کیسی تعلیم ہے کہ ہمارے بچے اپنی زبانوں سے کفریہ کلمات ادا کر رہے ہیں ؟ ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
کلکم راع وکلکم مسوول عن رعیتہ، والرجل راع فی اھلہ ومسوول عن رعیتہ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
"تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔
تو حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اولاد کے بارے میں اللہ ضرور سوال کرے گا۔۔
آج والدین کی دنیا پرستانہ ذہنیت کی وجہ سے ہمارے بچے ارتداد کی طرف بڑھ رہے ہیں ، اور ہمارے بچوں کے اندر سے صحیح اسلامی روح مفقود ہوتے جارہی ہے ، والدین بچوں سے پیار ضرور کریں یہ ان کا حق بھی ہے، مگر آپ کا پیار ایسا نہ ہو کہ اس کو بگاڑ دے، اسے غلط رخ پر لے جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًۭا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ

ترجمہ: مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (سورۃ التحریم،آیت 6)
قرآن کریم کی آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اولاد کی کس قدر فکر کرنی ہے، ہمیں خود بھی جہنم کی آگ سے بچنا ہے اور اپنے اہل وعیال کو بھی بچانا ہے۔
 بچوں سے پیار ایک فطری چیز ہے ،نبی کریم ﷺ بھی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپؐ نے سیدنا حسنؓ کو بوسہ دیا، وہاں اقرع بن حابس (ایک بدو سردار) بیٹھا تھا۔ اس نے کہا کہ میرے دو چار نہیں، دس بیٹے ہیں لیکن میں نے آج تک ان میں سے کسی کو نہیں چوما، کسی کو پیار نہیں کیا، بھلا سردار کا کیا کام کہ بچوں سے پیار کرے؟ نبی رحمتؐ نے نظر اٹھا کر دیکھا اور ارشاد فرمایا: ’’یا درکھو! اگر تم مہربانی نہیں کرو گے تو تم پر بھی مہربانی نہیں کی جائے گی۔ مہربانی اس پر ہوتی ہے جو خود مہربان ہو‘‘ (بخاری)۔ حضرت انسؓ نے فرمایا: اہل وعیال پر آپؐ سے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا (مسلم)۔ تو حدیث پاک سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اولاد سے محبت کر لنا سنت نبوی ہے۔۔ مگر اسی حد تک جس حد کو پار کرنے کے بعد بچے بگڑ نہ جائیں ۔

اسی طرح اگر ہم اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں گے، تو یہی بچے ہمارے لیے ذخیرہ آخرت بنیں گے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:-
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له (صحیح مسلم)

"جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں: صدقہ جاریہ،ایسا علم کہ لوگ اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھائیں یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔"

کم از کم اپنی اولاد کو اس قابل تو بناؤ کہ وہ آپ کی نماز جنازہ پڑھ سکے ، اس قابل تو بناؤ کہ وہ آپ کے لیے دعائے مغفرت کرسکے ،اس قابل بناؤ کہ وہ آپ کے بعد دین پر استقامت سے رہ سکے۔۔ ہمیں اپنی اولاد کی  دین پر استقامت کی کتنی فکر کرنی چاہیے قرآن کی اس آیت سے پتہ چلتا ہے ۔۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
اَمۡ کُنۡتُمۡ  شُہَدَآءَ  اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ  قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ  وَ  اِسۡمٰعِیۡلَ وَ  اِسۡحٰقَ  اِلٰـہًا وَّاحِدًا وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾

 کیا  ( حضرت )  یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب  انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم  ( علیہ السلام  ) اور اسماعیل  ( علیہ السلام  ) اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے ۔  
ایک جلیل القدر نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنی اولاد کی اتنی فکر تھی تو ہمیں کتنی فکر کرنی چاہیے؟ ذرا سوچیں!  اتنا مبارک گھرانہ خود نبی، ان کے والد حضرت اسحاق علیہ السلام بھی نبی، دادا حضرت ابرہیم علیہ السلام بھی نبی، اس کے باوجود بھی انہیں فکر تھی تو آخر ہم اتنی خوش فہمی میں کیوں مبتلا ہیں ؟ ذرا سوچیں! 
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنی اولاد کو جو نصیحت کی تھی ، جسے قرآن مجید میں کچھ اس انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔
وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ  عَظِیۡمٌ 

 اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا  بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ۔  
آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت لقمان اپنی اولاد کو شرک کی قباحت بتا رہے ہیں اور مشفقانہ انداز میں فرما رہے ہیں کہ شرک مت کرنا کیوں کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ہم بھی اپنے بچوں کو شرک سے آگاہ کرائیں، شرک کرنا تو دور کی بات اسکے قریب بھی نہ جانے دیں اور شرک کو تقویت پہنچانے والی چیزوں سے خود بھی دور رہیں اور اپنے بچوں کو بھی دور رکھیں۔
تو میری پوری تحریر کا یہی خلاصہ ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کی بہت فکر ہونی چاہیے، جو فکر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو ہوتی تھی وہ فکر ہمیں بھی ہونی چاہیے، یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم مسلمان ہیں تو ہمارے بچے  بھی مسلمان رہیں، اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں اور قرآن مثال دے دے کر سمجھاتا ہے حضرت لوط کی اور حضرت نوح علیہ السلام کی، کہ اللہ کے نیک بندوں کی بیویاں شوہر نبی ہونے کے باوجود ایمان نہیں لائیں، اللہ کے دین کے ساتھ بغاوت کی اور اپنی قوم کاساتھ دیا، حضرت نبی کریم ﷺ نے بھی ایک بار فرمایا "اے محمد کی بیٹی فاطمہ اپنے آپ کو جہنم سے خود بچانا میں تمہیں بچانے نہیں آؤں گا" ۔
میری یہی دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اپنی اولاد کی اسلامی نہج پر تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا