English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (۱۲)

share with us
jama masjid bhatkal

ذاتی ڈائری کا ایک ورق
بولتا پتھر

 


   عمار عبد الحمید لمباڈا
جمعہ کی نماز کے لئے قدیم جامع مسجد پہنچے ،مسجد کی نسبت سے محلہ کا نام "جامع محلہ" ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ یہاں کی قدیم ترین مسجد ہے جس کی توسیع کا ایک کتبہ برآمد ہوا ہے جس پر ۸۵۱ھ کندہ ہے، مشہور مسلم سیاح ابن بطوطہ کے وقت میں بھی یہ مسجد موجود تھی، بعد میں اس کی تجدید ہوتی رہی۔ یہ مسجد اپنی وسعت اور عظمت کے اعتبار سے قابل دید ہے۔
عبد الحمید ازہری صاحب نے بالکل سچ لکھا ہے" بھٹکل کو مساجد کا شہر کہا جاتا ہے ۔ حالیہ بیس پچیس برسوں میں تعمیر شدہ مساجد میں نفاست ، خوبصورتی ، وسعت و کشادگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ بھٹکل والے چونکہ تاجرانہ ذہن رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے مساجد کی تعمیر میں جاپانی صنعت کاروں کی طرح جگہ اور پیسے کا بہتر سے بہتر استعمال کیا ہے ۔ ملک کے مختلف علاقوں میں بہت بڑے بڑے بجٹ والی مسجدیں تعمیر ہوئی ہیں مگر ان میں سے کتنی ہی مساجد میں روپیوں اور جگہ کا مناسب استعمال نہیں ہوا ہے۔"(ڈیلی ترجمان اردو مالیگاؤں ۲۶،۲۸ فروری و ۱ مارچ ۲۰۰۹)
مسجد پہنچے تو دیکھا مسجد بھری ہوئی ہے ،لوگ پروانوں کی طرح کھنچے چلے آئے ہیں، ایک خاصی وسیع مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے دو پہر بارہ بجے ہی سے لوگ اس کثرت سے حاضر ہوچکے ہیں کہ جیسے سب کی اپنی پسند کی کوئی تقریب ہو،اور وہ بھی بے انتہا منافع کی اور شاید اسی لئے یہاں صرف جمن نہیں تھے بلکہ ان کے شانہ بشانہ سید بھی کونسل چھوڑ حاضر ہوئے تھے اور اکبر الہ آبادی کو غلط ثابت کر رہے تھے۔
ساڑھے بارہ بجے کے بعد اذان ہوئی اور کچھ ہی دیر میں خطیب صاحب عربی جبہ میں ملبوس سر پر سفید رومال ڈالے ہوئے حاضر ہوئے ،سلام کیا اور پھر خالص عربی لہجہ واسلوب میں "الشرك في الصفات" کے موضوع پر تقریبا ۱۵ منٹ تک عالمانہ خطبہ دیا ،نماز ہوئی اور اس کے بعد خطیب صاحب ہی نے خطبہ کا اردو ترجمہ کیا جو ترجمہ کم اردو خطاب کا بہترین نمونہ زیادہ تھا ، خطیب صاحب میرے لئے کوئی نئے آدمی نہ تھے وہ تو میرے استاذ محترم مولانا عبد العلیم خطیب ندوی صاحب تھے لیکن ان کا ہر انداز اور ان کی ہر گفتگو میرے لئے روز ان کو ہمیشہ سے نیا ثابت کرتی رہی ہے میں نے مولانا سے مدرسہ مظہر الاسلام بلوچ پورہ لکھنؤ میں تین سال تک پڑھا تھا ، بلکہ مدرسہ میں داخلہ کے لئے میرا امتحان بھی مولانا ہی نے لیا تھا اور مولانا ہی کے مشورہ سے ثانویہ رابعہ میں میرا داخلہ ہوا تھا اور اس کے بعد تو مولانا سے کئی معاملات میں مشورہ لیتا رہا اور انکی برکات کا مظاہرہ ہوتا رہا،مولانا ہمارے مدرسہ مظہر الاسلام کے ہر طالب علم بلکہ ہر استاذ کے بھی محبوب تھے، انتہائی نیک صفت نوجوان عالم دین جو نگاہ دیکھے رشک کرے، جب بھی ان کے پاس کچھ دریافت کرنے یا پڑھنے کے لئے ان کے کمرہ میں گیا مطالعہ میں پایا۔
مولانا کی ولادت ۷ ستمبر ۱۹۷۸ کو ہوئی ،آپ نے جامعہ اسلامیہ میں حافظ کبیر الدین صاحب سے حفظ کی ابتدا کی اور انجمن تعلیم القرآن کالیکٹ میں حافظ صفدر عالم فاروقی سے حفظ مکمل کیا ، اور سن ۲۰۰۰م میں جامعہ کے شعبہ عالمیت سے سند فراغت حاصل کی، دار العلوم ندوۃ العلماء میں شعبہ حدیث میں تخصص کیا اور سند فضیلت حاصل کی اور المعهد العالی للدعوۃ و الفکر الاسلامی سے بھی مستفید ہوئے۔ فراغت کے بعد مدرسہ مظہر الاسلام بلوچ پورہ لکھنؤ میں چار سال تک مدرس رہے اور اب جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ جامع مسجد بھٹکل کے خطیب بھی ہیں ۔ آپ نے "رسول انسانیت کی انسانیت نوازی، مذہب اہل سنت (ترتیب و تحقیق)، الكشف و الكرامة في ميزان العقل و النقل ، اور اس کے علاوہ کئی کتابیں اور علمی مضامین تحریر کئے ہیں۔
جمعہ کی نماز کے بعد جامع مسجد کے قریب ہی ایک قدیم مسجد دیکھنے گئے اسے مشما مسجد کہتے ہیں، مسجد لکڑی کی بنی ہوئی ہے،لکڑیاں آج بھی صحیح سالم ہیں، سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سپورٹ کے لئے موٹی رسیاں لٹکائی گئی ہیں، ہمارے یہاں گجرات کے سورتی سنی ووہرا قوم دیہاتوں میں آباد ہے آج بھی ان گاؤں کے پرانے مکانوں کی چھت اور سیڑھیاں اسی طرح ہوا کرتی ہیں، مسجد دو منزلہ ہے، پہلی منزل پر لوگ خدا کے سامنے اپنی مرضی سے سر جھکاتے ہیں لیکن دوسری منزل پر خواہی نہ خواہی سر جھکانا ہی پڑتا ہے، مسجد بہت ہی چھوٹی ہے لیکن اس دور کے طرز تعمیر کا پتا دیتی ہے، مسجد کے احاطہ کے صدر دروازہ پر مئذنہ ہے، وہ بعد کے دور کی تعمیر محسوس ہوتا ہے، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب نے شاید اسی کو سلسلہ فردوسیہ کی خانقاہ کہا ہے(تاریخ دعوت و عزیمت جلد ۳ ص ۳۱۱)مسجد کے سامنے ہی ایک دریا بہتا ہے یہیں پر عربوں کا وہ قافلہ آ کر رکا تھا جن کے دلوں میں نیا ایمان، نیا یقین، نیا اعتماد، نیا ولولہ، اور نیا حوصلہ تھا، توحید کی امانت ان کے سینوں میں تھی، جبین نیاز میں ایک بے نیاز ذات کے لئے ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے اسلامی دعوت کو پھیلانے کا جذبہ ان کے اندر سے چھلکا پڑتا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنی عبادت کے لئےایک یاد گار ساتھ لائے جو اب ہمیشہ کے لئے ان کے ایمان کی یادگار بن کر اہل بھٹکل کے آباء کی داستان ایمان سناتا رہے گا یہ ایک پتھر ہے جس پر شروع شروع میں یہ لوگ اپنے مالک و خالق کے سامنے کھڑے ہوئے تھے ، اس کے لئے جھکے تھے اور اسی کے لئے اپنے ماتھے کو زمین پر ٹیکا تھا۔

 

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 7 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 8 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 9 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 10 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 11 )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا