English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

share with us

یہ کس کی مہربانیاں

از :عمار عبد الحمید لمباڈا ندوی

 

کئی علاقوں پر قدرت بے انتہا مہربان ہوتی ہے، اس کے خزانوں کی وہاں بارش ہوا کرتی ہے ، زمین کی تہیں بھی خزانے سے بھری ہوئی اور بالائی زمین بھی اس سے لدی ہوئی، رتناگیری سے کنیا کماری تک یہ علاقہ قدرت کے خزانوں کا گویا مخزن ہے، یہاں زمین کی تہ میں کیا کچھ چھپا ہے ؟تفصیلات آپ کو جناب گوگل فراہم کردیں گے لیکن زمین کے اوپر بھی قدرت نے بے انتہا حسن و جمال اور خوبصورتی کی چادر بچھا رکھی ہے،

اب ایک نئی صبح ہوچکی تھی۔ پہاڑوں پر دھند چھائی تھی۔ بادلوں نے آدھا آسمان ڈھک دیا تھا۔ سورج ایک سمت سے طلوع ہوا چاہتا تھا۔ ریل سے دکھائی دینے والے پہاڑ سبزہ اوڑھے دھند کی سفید چادر تانے کھڑے تھے۔ دریا کہیں نیچے چپ چاپ بہہ رہا تھا۔ مقامی لوگوں کی نقل و حرکت شروع ہوچکی تھی۔ پہاڑوں میں شام جلد آجاتی ہے تو دن بھی جلد شروع ہوجاتا ہے۔

ان پہاڑوں کے پیچھے سے ابھرنے والے سورج کی پہلی پہلی روپہلی کرنیں یوں آہستہ آہستہ دریا میں اُتر رہی تھیں جیسے کوئی بہت مقدس پانی میں پہلے آہستہ سے اپنے پیر کی انگلیاں ڈبوئے، پھر تلوے، اور آخر میں ایڑیاں۔ کرنوں کے پانی میں اترنے کا یہ منظر بڑا ہی دلکش تھا۔

وادی میں بہتے دریا کی بھی اپنی ہی طبیعت اور رنگ ہیں۔ چپ چاپ، نیلگوں، اور روپہلا، اپنے کناروں پر سبز رنگ جھلکاتا ہوا ۔

ریل اس جنت ارضی کا نظارہ کراتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی، سبز چادر اوڑھے ہوئے پہاڑوں پر چھوٹی چھوٹی بستیاں اور اوپر کہیں کہیں بادلوں کی سفید مستطیل لکیریں پہاڑوں سے آسمان کی طرف جاتی ہوئیں جیسے کوئی نور آسمان سے زمین کی طرف آتا ہوا، ان حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ اچانک ریل سرنگ میں داخل ہوتی ہے ، جیسے ساری دنیا تاریک ہو گئی ہو اور پیغام دے رہی ہو کہ زندگی کی رعنائیاں تمہیں غافل نہ کردیں کہ موت حق ہے ایک دن اسی سرنگ کی مانند اچانک آئے گی اور پھر اس سے زیادہ گھنگھور اندھیرا چھا جائے گا۔

ایک جگہ نگاہیں ٹھہر سی گئی سبزہ زار پہاڑوں کے بیچ کوئی چشمہ کھرررررر کی آواز کے ساتھ بہا جا رہا ہے، فطرت کے نظارے کو مزید خوبصورتی دئے جا رہا ہے اور کہے جا رہا ہے ۔ یہ اونچے اونچے پہاڑ جب اشک بہاتے ہیں تب فطرت کو جمال حاصل ہوتا ہے،

یہ حسین نظارہ کہہ رہا تھا اے ابن آدم میرا نظارہ دیکھنے سے بہتر ہے میری ابتدا دیکھ ۔ میں نے فطرت کی گود میں کھیل رہے اس جھرنے کا مبدا دیکھا تو کوئی دیو قامت پہاڑ آنسوں بہا رہا تھا ، اسکی آنسوؤں کی بارش سے آنکھوں کو بھانے والا ،دل کو لبھانے والا خوبصورت نظارہ تخلیق ہو رہا تھا ، حقیقت ہے اشک ہی سے زندگی کو خوبصورتی عطا ہوتی ہے۔

ریل کی کھڑکی سے ایک گاؤں دیکھا جسے قدرت نے شہر پناہ کے طور پر پہاڑوں کا سلسلہ دیا ہے یہ پہاڑیاں نیلی چادر اوڑھے ہوئے ، گاؤں کے مکان ، محلے سے آزاد، کھیت کھلیانوں سے مربوط ،جس میں ناریل اور سوپاری کے درخت اس کثرت سے کہ گھر بمشکل نظر آئے۔

ہمیں بائنڈور ریلوے اسٹیشن پر اترنا تھا اس سے قبل ایک انتہائی خوبصورت نظارہ سے آنکھیں جیسے پرنور ہو گئیں ہو ۔۔دو رویہ درختوں کی قطار کے بیچ کمر لہراتی ، بل کھاتی ندی، درخت جیسے تماشائی ،ندی جیسے مغل اعظم کی کوئی رقاصہ ، محفل کی سجاوٹ اللہ اللہ، آسمانی چھت نیلگو نیلگو، اس پر شمع آفتاب مستزاد ، ارضی قالین سبز سبز ، اس پر ندیا کا پاگل کردینے والا رقص، اس نظارے میں ایسا کھویا کہ پتہ ہی نہ چل سکا کب ہمارا اسٹیشن آیا؟ مولانا منیری اپنے احباب کے ساتھ ہمارے انتظار میں تھے، اور اس نظارے نے مجھے ما قبل کے نظارہ سے زیادہ مبہوت کیا کہ۔ ۔

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل

نسیم صبح تیری مہربانی۔

 

29 ستمبر 2021 بروز بدھ

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں (ادارہ ) 

09؍ اکتوبر 2021

 

سلسلہ وار مضمون کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

 چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا