English   /   Kannada   /   Nawayathi

حضرت محمدﷺ   کے 63 سال کی حیات پاک کا مختصر ترین بیان

share with us
darood


   ابونصر فاروق


    ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔جگہ جگہ سیرۃ النبیﷺ کے جلسے ہوں گے۔جلوس نکالے جائیں گے۔ میلاد کی محفلیں ہوں گی۔ جھوم جھوم کر سلام پڑھا جائے گا۔لیکن ان نام نہاد عاشقان رسول سے کوئی پوچھے کہ تم نبی رحمت ﷺ کے متعلق کیا جانتے ہو ؟  تو خاموشی کے سوا ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔در اصل ان لوگوں کو نبیﷺ سے نہ محبت ہے اور نہ ان کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔سوچئے جو فرد نبیﷺ کے متعلق کچھ جانتا ہی نہ ہو وہ اُن سے محبت کیسے کرے گا،اُ ن کے احکام کی پیروی کرکے اُن کی شفاعت کا حقدار کیسے بنے گا۔ایسے ہی لوگوں کے لئے میں نے انتہائی  مختصر طور پر نبی ﷺ کی حیات پاک کے متعلق ضروری باتیں لکھ دی ہیں تاکہ محبت رسولﷺ کے دعوے دار اپنے نبی کے متعلق اس کو پڑھ کر جان تو لیں۔
    ولادت رسولﷺ:    ہاتھی والے بادشاہ نے جب کعبہ پر حملہ کرنا چاہا تھا تووہاں سے دنوں کی گنتی شروع کی گئی او ر اسے عام الفیل(ہاتھی کا سال) کہا گیا۔عام الفیل کے تقریباً دو مہینے بعد12/ ربیع الاول پیرکے دن رسول اللہﷺ کی ولادت ہوئی۔ماں آمنہ نے بیٹے کا نام احمدﷺ رکھا۔ دادا کو خبر ملی توانہوں نے پوتے کا نام محمدﷺ رکھا۔دویا تین دن بی بی آمنہ نے دودھ پلایا۔پھر ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ ؓنے چاریا پانچ دن دودھ پلایا۔پھرقبیلہ بنو سعد کی دائی حلیمہ محمد ﷺ کو پرور ش کے لئے اپنے ساتھ لے گئیں اور دو سال تک جو بچے کودودھ پلانے کی مدت ہے اپنے پاس رکھے رہیں اور ان کی پرورش کرتی رہیں۔پھر بی بی آمنہ کو لاکر اُن کی امانت سونپ دی۔محمدﷺ بھی کی ولادت سے پہلے ہی بابا عبد اللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ۶/برس کے ہوئے تو ماں آمنہ بھی دنیا سے چل بسیں۔تب دادا عبد المطلب نے آپ کو پالا۔ ۸/بر س کے ہوئے تو دادا بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔تب چچا ابو طالب نے، جو بابا عبد اللہ کے سگے بھائی تھے محمدﷺ کی پرورش کی ذمہ داری لے لی۔
    نواں سال:    خانہئ کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی،بچوں کے ساتھ محمدﷺ بھی سر پر اینٹ ڈھو رہے تھے،چچا نے چاہا کہ دوسرے لڑکوں کی طرح محمدﷺ کا تہبندبھی کھول کرسر پر رکھ دیں تاکہ سر کو تکلیف نہ ہو۔جیسے ہی تہبند کھولنا چاہا محمدﷺ بیہوش ہو گئے۔دنیا کو بتانا تھا کہ حیا ایمان کی شاخ ہے۔
    12واں سال:    12سال کے ہوئے توچچا ابو طالب ملک شام تجارت کے لئے جا رہے تھے بھتیجے کو بھی ساتھ لیتے گئے۔بصریٰ کے مقام پر عیسائی راہب سے ملاقات ہوئی، اس نے آپ کے نبی ہونے کی پیشین گوئی کی اورکہا انہیں ملک شام مت لے جاؤ، وہاں یہودی ان کے دشمن ہیں۔
    24واں سال:    نبیﷺ24سال کے ہوئے توبی بی خدیجہ کا مال لے کر دو بارہ ملک شام کے سفر پر گئے۔اچھی تجارت کی اور اچھا منافع کمایا۔بی بی خدیجہ کے دل میں چاہت پید ا ہوئی۔ نکاح کا پیغام بھیجا او25/ سال کی عمر میں 40/سال کی بیوہ سے نکاح ہو گیا۔
    35واں سال:    35واں سال تھا۔ خانہئ کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی،حجر اسود کو دیوار میں کون لگائے اس پر بات بگڑ گئی۔رائے ہوئی کہ کل خانہ کعبہ میں آنے والا پہلا آدمی یہ کام کرے گا۔ دوسرے دن محمدﷺسب سے پہلے خانہ کعبہ میں آئے۔آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر پر رکھا اور ہر قبیلے کے سردار سے کہا مل کر چادر اٹھاؤ۔پھر اپنے ہاتھ سے حجر اسود دیوار میں لگا دیا۔اللہ نے مکہ والوں کو دکھا دیا کہ دیکھو یہی تمہارا سردار بنے گا اور تمہارے سارے جھگڑوں کا نپٹارا کر دے گا۔آنے والی تاریخ نے اسے ثابت کر دیا۔اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا ہونے انسانوں کا رہبر و پیشوا نبیﷺ کو بنا دیا۔
    40واں سال:    چالیسواں سال شروع ہو چکا تھا۔حضرت محمدﷺاکثرکھانے پینے کا سامان لے کر غار حرا چلے جایا کرتے تھے اور قوم کی گمراہی پر غور و فکر کرتے رہتے تھے کہ کیسے اس کی اصلاح کی جائے۔ایک دن ایک آواز آئی،لیکن کوئی نظر نہ آیا۔پھر وہی آواز آئی:محمدﷺ!تم اللہ کے رسول ہو،اور میں جبرئیل ہوں۔جبرئیل ؑنے سورہ ئ  علق کی پہلی پانچ آیتیں پڑھائیں۔ آپﷺ پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر پھر پڑھنے لگے۔اس واقعہ سے آپﷺ بہت گھبرا گئے اور کانپتے ہوئے واپس گھر آئے۔ خدیجہؓ سے کہا:مجھے اُڑھاؤ! کچھ اُڑھاؤ! بی بی خدیجہ ؓنے چادر اُڑھا دی اوریہ حالت دیکھ کر وہ بھی گھبراگئیں۔نبی ﷺبولے مجھے اپنی جان کا ڈرہے۔ خدیجہ ؓ بولیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔آپ کی نیکیاں گناتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کو برباد نہیں کرے گا۔پھر اپنے چچیرے بھائی وَرقہ بن نو فل کے پاس لے گئیں۔وہ بولے،تم اس امت کے نبی ہوگے۔جب تم نبوت کا اعلان کرو گے تو قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی۔قوم کی دشمنی کی بات پر نبی ﷺ کو حیرت ہوئی۔پھر

 دوسری وحی آئی ”اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے اٹھو اور ڈراؤ۔“ تب نبی ﷺ نے لوگوں کوبتانا شروع کیا کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے۔ سب سے پہلے عورتوں میں حضرت خدیجہؓ،مردوں میں حضرت ابوبکرؓ،لڑکوں میں حضرت علیؓ، اور غلاموں میں حضرت زیدؓ بن حارثہ ایمان لائے۔تین سال تک اسلام کی دعوت چپکے چپکے لوگوں کودی جاتی رہی اور قریبی لوگ ایمان لاتے رہے۔ شروع میں  فجر اور عصر کی ہی نماز پڑھی جاتی تھی۔معراج کا واقعہ ہونے کے بعد پانچ وقتوں کی نمازیں فرض ہوئیں اور تب سے آج تک۵ وقت کی نماز پڑھی جا رہی ہے۔ نبیﷺ کو نبوت مل جانے کے بعداب یہاں سے سالوں کی گنتی ہاتھی والے سال کی جگہ نبوی سال کے نام سے کی جانے لگی۔
    چوتھا نبوی سال:    نبوت کے چوتھے سال پھر حکم آیا:اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ (الشعراء:214)تب نبیﷺنے دین کی دعوت دینے کے لیے کھانے پر رشتہ دار وں کو بلایا اوراسلام کے بارے میں بتایا۔یہاں بھی ابو لہب نے مخالفت کی۔لیکن بارہ سال کے علیؓ نے کہا، میں ساتھ دوں گا،میں آپﷺکی مدد کروں گا۔پھر حکم آیاکہ اب کھلے عام دعوت دیجئے:نبی ﷺپہاڑی پر چڑھ گئے اورقوم کو پکاراپھر اپنے نبی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کواسلام کی دعوت دی۔سب سے پہلے چچا ابولہب نے آپ کا مذاق اڑایا اور بات ماننے سے انکار کر دیا۔قوم نے بھی بات نہ مانی۔
    پانچواں نبوی سال:    مخالفت میں شدت آ گئی، حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا۔حبشہ کے حاکم نے مسلمانوں کو پناہ دے دی۔ عرب کے مشرکین نے وہاں پہنچ کر مسلمانوں کے خلاف شاہ حبش کوگمراہ کرنا چاہا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔مسلمان وہاں چین سے رہنے لگے۔
    چھٹا نبوی سال:ابوجہل نے نبیﷺ کے ساتھ بیہودگی اور اُن کو اذیت پہنچائی۔چچا امیرحمزہ ؓ شکار پر گئے ہوئے تھے۔واپسی پر لونڈی نے بتایا کہ آج آپ کے بھتیجے کے ساتھ ابو جہل نے ایسا ایسا کیا۔ امیر حمزہؓ نے جا کر ابو جہل کو مارا ور نبی ﷺ کو خوش خبری دی کہ تمہاری بے عزتی کا بدلہ میں نے لے لیا۔نبیﷺ نے فرمایا مجھے اس سے خوشی نہیں ہوئی، مجھے تو خوشی اس پر ہوگی کہ آپ ایمان لے آئیں۔تب امیر حمزہ ؓ نے کلمہ پڑھا اور ایمان لے آئے۔اسی سال حضرت عمرؓ بھی نبی ﷺ کو قتل کرنے نکلے تھے،لیکن دار ارقم پہنچ کر ایمان لے آئے اور حکم دیا کہ بلند آواز سے اذان دو۔امیر حمزہؓ اور عمرؓ کے ایمان لانے سے اہل ایمان کو طاقت میسر ہوئی۔مبارک ہیں وہ لوگ جن کے اہل ایمان بننے سے دین اسلام کو طاقت اور تقویت ملتی ہے۔
    ساتواں  نبوی سال:    ساتویں سال قوم نے نبیﷺ   کے سوشل بائی کاٹ کا فیصلہ کیا۔ نبیﷺ اور آپ کا پورا خاندان ابوطالب کی گھاٹی میں قید کر دیاگیا۔اس قید کے درمیان تمام لوگوں نے فاقہ کشی کی سخت تکلیف سہی۔بچے بھوک سے بلبلاتے تھے، لیکن ظالموں کو رحم نہیں آتا تھا۔
    دسواں نبوی سال:    دسویں سال یہ بائی کاٹ ختم ہوا۔اسی سال ابو طالب کا انتقال ہو گیا۔بو طالب کے انتقال کے بعد نبیﷺ کو ایک سرپرست کی ضرورت تھی۔اُنہوں نے کئی سرداروں سے کہا کہ وہ مدد کرے۔ اسی سلسلے میں طائف کا سفر کیا اور بنی ثقیف کو دعوت دی۔ انھوں نے نہ مانا اور مذاق اڑایا اور نبی ﷺ کے ساتھ بیہودگی کی۔اسی سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال کا بھی ہو گیا۔نبیﷺ باہر کے ساتھ گھر میں بھی تنہا ہو گئے۔تب حضرت سودہ ؓ اور حضرت عائشہؓ سے نبیﷺکا    نکاح ہوا۔ حضرت سودہ ؓ اورخصت ہو کر نبیﷺ کے حرم میں آ گئی۔ حضرت عائشہؓ نابالغ تھیں اس لئے وہ نبیﷺ کے حرم میں نہیں آئیں۔جب وہ بالغ ہو گئیں تب ان کومکہ سے مدینہ لایا گیا اور نبیﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں۔
    قریش کا ظلم و ستم جب حد سے بڑھ گیا اور مکہ میں رہنا مشکل ہو گیا تو نبیﷺنے طائف کی طرف جانے کا ارادہ کیا کہ وہا ں جا کر اسلام کی دعوت دی۔طائف میں بڑے بڑے امر ا اور بااثر لوگ رہتے تھے، لیکن افسوس وہاں جا کر آپ کو تلخ تجربہ ہوا۔وہاں عمیر کا خاندان قبیلوں کا سردار تھا۔ یہ تین بھائی تھے عبد یا لیل،مسعود اور حبیب۔نبیﷺان کے پاس گئے اور ان کواسلام کی طرف بلایا۔ ان تینوں نے نہایت دل شکن جواب دیے۔ نبیﷺ کو ان کے جواب سے بڑی مایوسی ہوئی۔ان بدبختوں نے صرف نبیﷺ کا مزاق ہی نہیں اڑایا بلکہ طائف کے بازاری لونڈوں کو ابھار دیا کہ آپ کی ہنسی اڑائیں۔شہر کے اوباش بھی آپ کے پیچھے پڑ گئے۔نبیﷺ جدھر سے گزرتے آپ کو پتھر مارتے۔نبیﷺ لہو لہا ن ہو گئے یہاں تک کہ آپ کی جوتیا ں خون سے بھر گئیں۔نبیﷺ نے اللہ سے فریاد کی۔ پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا گیا کہ ان لوگوں کو پہاڑوں کے بیچ کچل دیا جائے۔ نبیﷺ نے معاف کر دیا۔
    حضورﷺقبائل کے پاس دعوت اسلام کی غرض سے جایا کرتے تھے۔رجب۰۱/ نبوی میں حضورﷺ عقبہ کے پاس تشریف لے گئے جہاں خزرج کے کچھ افراد نظر آئے۔حضورﷺ نے اُن سے نام و نسب پوچھا۔ اُنہوں نے کہا خزرج۔حضور ﷺنے اُن کوقرآن سنایا اور ایمان لانے کی دعوت دی۔اُنہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا یہودی ایمان لانے میں ہم سے آگے نہ بڑھ جائیں۔ یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ اُن کی تعدادچھ تھی۔یہ مدینہ کے وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اور اسلام کے مددگار بنے اس لئے ان کو انصار(مددگار) کا لقب ملا۔
    گیارہواں نبوی سال:    دوسرے سال یعنی۱۱/نبوی میں بارہ افراد مدینہ منورہ سے آئے اور حضورﷺ کے ہاتھو ں پر بیعت کی۔اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ؎مدینہ والوں کواسلام کی تعلیم دینے کے لئے کسی معلم کو ساتھ کر دیجئے۔ حضورﷺ نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو اُن کے ساتھ بھیج دیا۔ وہ مدینہ آ کر اسعدؓبن زرارہ کے مکان میں ٹھہرے جو مدینہ کے ایک رئیس تھے۔ حضرت مصبؓ روزانہ مدینہ کے ایک گھر میں جاتے اور اُن کو اسلام کی دعوت دیتے۔ روزانہ ایک دو آدمی اسلا قبول کرلیتے۔آہستہ آہستہ مدینہ میں دین اسلام پھیلنے لگا۔موجودہ مذہبی گروہوں نے اس طریقہ کو اپنایا ہی نہیں۔
    بارہواں نبوی سال:    بارہویں سال معراج ہوئی اور نبی ﷺ آسمان پر گئے۔ ساتوں آسمان کی سیر کی۔عرش معلیٰ تک لے جائے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازوں کا تحفہ دیا۔واپسی پر موسیٰ علیہ السلام نے نماز کم کرانے کا مشورہ دیا۔پھر کئی مرحلوں میں پچاس وقت کی نماز پانچ وقت کی کر دی گئی لیکن اللہ نے وعدہ کیا گیا کہ نبیﷺ کی امت پانچ وقتوں کی نمازیں پڑھے گی، لیکن ثواب پچاس وقتوں کی نماز کا ہی ملے گا۔
    تیرہواں نبوی سال:     قریش اس بات سے سخت پریشان تھے کہ اسلام پھیلتا جا رہا ہے۔انہو ں نے مشورہ کر کے طے کیاکہ ہر قبیلہ سے ایک ایک شخص مل کر ایک ساتھ مل کر تلواروں سے نبیﷺ کا خاتمہ کردے۔پھر  آ ل ہاشم تمام قبائل سے بدلہ نہیں لے سکیں گے۔سب فوراً تیار ہو کر آئے اور حضور ﷺکے مکا ن کا محاصرہ کر لیا،۔نبی ﷺ نے حضرت علیؓ کو بلا کرفرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے، میں آج مدینہ روانہ ہو جاؤں گا۔تم میری پلنگ پر میری چادر اوڑ ھ کر سو رہو۔ صبح کو سب کی امانتیں جا کر واپس کر دینا۔ ابوبکرؓ سے حضورﷺنے فرمایا مجھے ہجرت کی اجازت ہو چکی ہے۔ابوبکرؓ نے پوچھا، کیا مجھ کو ہمراہی کا شرف حاصل ہوگا ؟  حضورﷺنے ارشاد فرمایا ہاں۔ اور پھر نبیﷺابوبکر ؓ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
    حضرت عمر فاروق ؓ جب خلیفہ بنے تو اُن کے دور میں ایک خط پر تاریخ تو لکھی ہوئی تھی لیکن سال نہیں لکھا ہوا تھا۔جب کہ یہ جاننا ضروری تھا کہ یہ خط کس سال لکھا گیا تھا۔اُس وقت اہل اسلام کو خیال آیا کہ ہمارے پاس سال کا حساب بھی ہونا چاہئے۔غیروں کی نقل کرنا اہل اسلام کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ اس لئے طے ہوا کہ سال کا ہمارا اپنا حسب ہوگا۔سال کی شروعات کہاں سے کی جائے تو عیسائیوں کی طرح نبی ﷺ کی پیدائش سے سال شروع کیا جا ئے یہ بھی مشورہ آیا۔اور بھی مشورے آئے۔ لیکن اہل اسلام کے نزدیک اصل اہمیت اسلام کی تھی اس لئے طے پایا:چونکہ ہجرت کے بعد اسلام کو فروغ اور ترقی ملی اس لئے ہجرت سے سال شروع کیا جائے۔ہجرت ذی الحجہ کی آخری تاریخوں میں ہوئی تھی اور مدینہ پہنچ کر محرم کا مہینہ شروع ہوا تھا۔ اسی لئے  اسلامی سال ہجری سال کہلایا اور اس کی شروعات محرم کے مہینے سے ہوئی۔اُس وقت اہل اسلام کے درمیان محرم غم کا مہینہ نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔
    مسجدکی تعمیر:    ا ب تک یہ معمول تھا کہ جہاں موقع ملتانبیﷺ نمازادا کر لیتے۔ خاندان نجار کے دویتیم بچوں کی ایک زمین تھی۔  نبی ﷺ نے اُن یتیم بچوں سے کہا،میں مسجد کیلئے یہ زمین قیمت دے کر لینا چاہتا ہوں۔ یتیم بچوں نے زمین نذر کرنے کی بات کہی۔نبیﷺنے سونے کے دس دینار کے عوض اُسے خرید لیا۔یہ قیمت حضرت ابوبکرؓ کے مال سے ادا کی گئی۔طے ہو گیا کہ مسجد یا تو خریدی ہوئی یا تحفہ دی ہوئی زمین پر بنے گی۔ اس کے علاوہ ناجائز طور پر قبضہ کی ہوئی زمین پر مسجد بنائی ہی نہیں جا سکتی ہے۔مسلم حکومت کا اپنے پورے ملک پر اختیار ہوتا ہے۔ وہ جہاں چاہے مسجد بنائے۔
    غزوہ ئبدر:    اہل اسلام پر اہل کفر و شرک لگاتار ظلم اور زیادتیاں کرتے چلے آ رہے تھے اور اہل اسلام نے اب تک اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔پھر جب صفر ۲/ہجری میں یہ آیت نازل ہوئی۔”اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو،جن لوگوں کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں،اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصورپر کہ وہ کہتے تھے،ہمارا رب اللہ ہے۔“(الحج:آیت:40)ابھی صرف اجازت دی گئی تھی۔ لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔پھر یہ آیتیں نازل ہو ئیں:”لڑو اللہ کی راہ میں اُن سے جو تم سے لڑتے ہیں۔ جہاد کرو اور زیادتی نہ کرو۔“(البقرہ:190)”انہیں مارو،جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور مسجد حرام کے پاس لڑائی نہ کرو، جب تک کہ یہ تم سے خود نہ لڑیں۔اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو، کافروں کا بدلہ یہی ہے۔“(البقرہ:191)”ان سے لڑو جب تک کہ جنگ اپنے ہتھیارنہ ڈال دے اور اللہ کا دین غالب نہ آ جائے۔ اگر یہ رک جائیں  تو تم بھی رک جاؤ۔“(البقرہ:193)
     قریش نے ایک ہزارکی فوج کے ساتھ12/رمضان2/ہجری کو مدینہ پر حملہ کیا۔نبیﷺ تقریباً تین سو جاں بازوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے نکلے۔قریش سے سخت مقابلہ ہوا اور آخر کار اہل ایمان کو فتح ہوئی اور قریش کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
    غزوہ ئاُحد:قریش بدر کی جنگ کا بدلہ لینے دوبارہ آئے۔3/ہجری ماہ شوال میں غزوہ اُحد ہوا۔ شروع میں اہل ایمان کو فتح ہوئی لیکن نبیﷺ کی نافرمانی کے سبب فتح شکست میں بدل گئی۔پھر اللہ کی رحمت سے اہل ایمان کامیاب ہو گئے اور اس جنگ میں ایمان والوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ لگا۔منافقین کا سردار عبد اللہ ابن اُبئی اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے بھاگ گیا۔اُن لوگوں نے نبیﷺ کا ساتھ نہیں دیا۔
    4/ہجری میں یہودی قبیلہ بنی نضیر کو مدینہ سے شہر بدر کیا گیا۔5/ہجری ماہ شعبان میں غزوہ بنی مصطلق ہوا،اورذی قعدہ میں غزوہ خندق ہوا۔6/ ہجری ماہ شوال میں صلح حدیبیہ ہوئی۔7/ہجری ماہ محرم میں خیبر کا قلعہ فتح ہوا۔8/ہجری ماہ رمضان میں مکہ فتح ہوا۔9/ہجری ماہ رجب میں غزوہ تبوک ہوا۔10/ہجری ماہ ذی قعدہ میں حضورﷺ نے حج ادا کیا۔11/ہجری ماہ ربیع الاول کے مہینے میں آپ بیمار ہوئے۔ مرض بڑھتا گیا اور12/ ربیع الاول کو آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔اے حبیب خدا اے شہہ دوسرا اے شفیع الامم تم پہ لاکھوں سلام-سیدھا رستہ ہمیں تم نے دکھلا دیا تم ہو ابر کرم تم پہ لالکھوں سلام

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا