English   /   Kannada   /   Nawayathi

جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کے پچیس سال کی تکمیل پر تعلیمی وتجزیاتی کانفرنس 

share with us


 سبب کے دائرے میں رہ کر مسبب کی معرفت ضروری :  مولانا خالد ندوی غازیپوری 

کنڈلور 12/ جنوری 2020(فکروخبر نیوز)  ضیاء ایجوکیشنل ٹرسٹ کنڈلور کے قیام کے پچیس سال کی تکمیل پر جامعہ کے احاطہ میں پچیس سالہ تعلیمی وتجزیاتی کانفرنس کے نام سے ایک خوبصورت پروگرام منعقد کیا گیا۔ پروگرم میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے مؤقراساتذہ کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کے علماء اور جامعہ کی فارغین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔پروگرام کا آغاز قاری محمد مجتبیٰ صاحب کی تلاوت سے ہوا اور نعت سہیل شیموگہ نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں پیش کی۔جامعہ ضیاء العلوم کا تعارف استاد مفتی صابر حسین ندوی نے پیش کیا جس میں جامعہ کے مختلف شعبوں کا مختصراً تعارف بھی پیش کیا۔ 
استقالیہ کلمات بانی وناظم ضیاء ایجوکیشنل ٹرسٹ کنڈلور مولانا عبیداللہ ابو بکر ندوی نے پیش کیے جس میں انہو ں نے اس ٹرسٹ کے قیام کے مقاصد اور اس کے پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مولانا نے بتایا ک

 


سبب کے دائرے میں رہ کر مسبب کی معرفت ضروری : مولانا خالد ندوی غازیپوری

کنڈلور 12/ جنوری 2020(فکروخبر نیوز) ضیاء ایجوکیشنل ٹرسٹ کنڈلور کے قیام کے پچیس سال کی تکمیل پر جامعہ کے احاطہ میں پچیس سالہ تعلیمی وتجزیاتی کانفرنس کے نام سے ایک خوبصورت پروگرام منعقد کیا گیا۔ پروگرم میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے مؤقراساتذہ کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کے علماء اور جامعہ کی فارغین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔پروگرام کا آغاز قاری محمد مجتبیٰ صاحب کی تلاوت سے ہوا اور نعت سہیل شیموگہ نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں پیش کی۔جامعہ ضیاء العلوم کا تعارف استاد مفتی صابر حسین ندوی نے پیش کیا جس میں جامعہ کے مختلف شعبوں کا مختصراً تعارف بھی پیش کیا۔
استقالیہ کلمات بانی وناظم ضیاء ایجوکیشنل ٹرسٹ کنڈلور مولانا عبیداللہ ابو بکر ندوی نے پیش کیے جس میں انہو ں نے اس ٹرسٹ کے قیام کے مقاصد اور اس کے پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مولانا نے بتایا کہ اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھنے سے قبل ملک وبیرون کی مشہور شخصیات اور کئی اداروں کے سرپرست، سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اس کا خاکہ پیش کیا گیا اور انہیں کے مشورے کے مطابق 1994؁ء میں سب سے پہلے مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی جس نے بہت ہی کم عرصہ میں جامعہ کی شکل اختیار کرلی اور وہاں سے نکلنے والے طلباء نے قوم وملت کی دینی اور دعوتی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنی کوششیں صرف کیں او ریہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس کے بعد لڑکیوں کی دینی خطوط پر تعلیم وتربیت کے لیے جامعہ عائشہ للبنات کا قیام 1995؁ء میں عمل میں آیا۔ مولانا نے اپنے استقبالیہ میں بتایا کہ جب انگریزی زبان کی طرف نئی نسل کے بڑھتے رجحان کو دیکھا گیا تو ضیاء پبلک اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام اردو زبان میں ضیاء اور کنڑا زبان میں دیویا پربھا کے نام سے مجلے بھی جاری کیے گئے۔ مولانا نے اس کے قیام پر اللہ رب العزت کا بے پناہ شکریہ ادا کیا اور کہا کہ محض اسی کی توفیق سے یہ کام ہوا ہے او رہورہا ہے او رآئندہ بھی اسی کی توفیق سے جاری رہے گا۔ ان پچیس سال کی مدت میں کئی امتحان کی گھڑیوں سے بھی گذرنا پڑا لیکن اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص کرم فرمایا۔ بس جو کچھ ہے وہ اللہ کا فضل ہے۔
ضیا ء ایجوکیشنل ٹرسٹ کی پچیس سالہ خدمات پر رودادِ ضیاء کے نام سے ایک کتاب کا رسمِ اجراء مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری صاحب کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مفتی صابر حسین ندوی کی تصنیف فقہ اسلامی کی تدوین ضرورت واہمیت اور بنیاد ی خدوخال، مفتی عبدالکریم ندوی گنگولی کی کتاب عربی ادب کی مختصر تاریخ اور رمضانیات پر عالیہ ثالیہ شریعہ کے طالب علم محمد مزمل ساگر کی کتاب کا بھی اجراء اسٹیج پر موجود معزز مہمانوں کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
پروگرام میں جامعہ ضیاء العلوم کے فارغین نے اپنے اپنے تأثرات پیش کرتے ہوئے اپنی دینی اور دعوتی مصروفیات پر روشنی ڈالی اور اسے اپنے مادرِ علمی کا فیض قرار دیا اور اپنے اساتذہ، خصوصاً مولانا عبیداللہ ابوبکر ندوی، مولانا محمد الیاس ندوی، مولانا عبدالرافع ندوی اور دیگر اساتذہ کی کوششوں کو بھی سراہا۔ جن میں قابلِ ذکر مولانا عبدالمعز بنگلوری، مولانا نثار شریف ندوی، مولانا فرحان قاضی ندوی، مولانا تبریز کیرلا، قاضی سمیر ندوی، مولانا آصف ندوی اور دیگر شامل ہیں۔
پروگرام کی صدارت قاضی جماعت المسلمین بھٹکل، صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل، مجمع الامام الشافعی العالمی کے صدر محترم مولانا محمد اقبال صاحب ملاندوی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض مفتی عبدالکریم ندوی گنگولی نے بحسنِ خوبی انجام دئیے۔

سبب کے دائرے میں رہ کر مسبب کی معرفت ضروری : مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری

سبب کے دائرے میں رہ کر مسبب کی معرفت ضروری ہے۔ آج یہی صورت مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ہر طرف سبب کو پڑھایا جارہا ہے لیکن مسبب کی پہچان نہیں ہورہی ہے۔ یہی وہ مدارس ہیں جن کے ذریعہ سے مسبب کو پہنچاننے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ آج یہ مدارس نہ ہوتے تو اس کا موقع میسر ہونا مشکل ہوتا۔ ان باتوں کا اظہار دار العلوم ندوۃ العلماء کے استادِ حدیث حضرت مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری نے کیا۔ مولانا نے اپنے خطاب میں مدارس کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ علم نافع کے حصول کے لیے جتنی کوششیں کی جائیں وہ سب محمود ہیں لیکن ان کوششوں کو مزید آگے بڑھانے کے لیے ہم سب کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ علم غیر نافع کی مختلف صورتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج ایک بڑی تعداد شریعت کو پرانے ہونے سے تعبیر کرتے ہیں وہ جواب دیں کہ سورج، سمندر، ندی، دریا، چاند اور پہاڑ بھی پرانے ہوچکے ہیں، اس سے معلوم ہوا ہے کہ ان چیزوں کے پرانے ہونے سے ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تو شریعت جب سے اس دنیا کو ملی ہے اس وقت سے آج تک اسی آب وتاب کے ساتھ زندہ ہے۔دین کے لیے کوششیں کرنے پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے نزول کے متعلق مولانا نے کہا کہ جہاں اللہ کا نام لیا جاتاہے وہاں اللہ تعالیٰ معیشت کے بھی دروازے کھول دیتے ہیں، ایک وہ وقت تھا جب ایک چھوٹی سی مسجد اور دو کمرے تھے۔ آج اسی جامعہ کے فیض سے یہاں پختہ عمارتیں تعمیر ہوئیں ہیں اور قصبہ کی تصویر بھی بدلی ہے جس کو میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے قیام کے وقت دیکھا کرتا تھا۔ دوسری طرف جہاں قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں نہیں گونجتی اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوششیں نہیں کی جاتیں تو وہاں پر لاکھوں روپئے موجود ہونے کے بعد بھی لوگ زندگی کے حقیقی سکون سے محروم ہیں اور آخرت میں انہی لوگوں کی روشنی چھین لی گئی۔
قرآن کریم کی آیتوں کی برکتوں پر مولانا نے کہا کہ قرآن کریم کی آیتوں کی برکت سے اللہ کی رحمتوں کا نزول نہ صرف زندہ لوگوں پر ہوتا ہے بلکہ قبر میں آرام کرنے والوں پر بھی اس کی ان گنت رحمتیں نازل ہوتی ہیں جس کے بارے میں ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عذابِ قبر سے نجات دلادیتے ہیں۔ آج مغرب کو دیکھ لیجئے وہ بڑی تعداد میں اپنے بچوں کو حافظِ قرآن بنارہے ہیں، ان کے مکاتب آج اس سے بھرے ہوئے ہیں اور گویا ان کا عقیدہ ہوتا جارہا ہے کہ قرآن پاک حاصل کرنے والا دنیاوی ڈگریاں آسانی کے ساتھ حل کرسکتا ہے۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ یہ تعداد سمٹ رہی ہے۔
مولانا نے اپنے خطاب میں جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کی خدمات کو سراہا اور اس کو مزید آگے بڑھانے پر زور دیا۔
استاد فقہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو مولانا عتیق احمد بستوی نے کہا کہ مکتب میں پڑھانے والے کا بھی وہی مقام ہے جو بڑے بڑے مدارس اور اسکولوں میں پڑھانے والوں کا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ اس سے بڑھ کر بھی ہوسکتا ہے۔ مولانا ہی کی  دعا پر یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔

 

ہ اس ٹرسٹ کو بنیاد رکھنے سے قبل ملک وبیرون کی مشہور شخصیات اور کئی اداروں کے سرپرست، سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اس کا خاکہ پیش کیا گیا اور انہیں کے مشورے کے مطابق 1994؁ء میں سب سے پہلے مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی جس نے بہت ہی کم عرصہ میں جامعہ کی شکل اختیار کرلی اور وہاں سے نکلنے والے طلباء نے قوم وملت کی دینی اور دعوتی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنی کوششیں صرف کیں او ریہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس کے بعد لڑکیوں کی دینی خطوط پر تعلیم وتربیت کے لیے جامعہ عائشہ للبنات کا قیام 1995؁ء میں عمل میں آیا۔ مولانا نے اپن استقبالیہ میں بتایا کہ جب انگریزی زبان کی طرف نئی نسل کے بڑھتے رجحان کو دیکھا گیا تو ضیاء پبلک اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام اردو زبان میں ضیاء اور کنڑا زبان میں دیویا پربھا کے نام سے مجلہ بھی جاری کیے گئے۔ مولانا نے اس کے قیام پر اللہ رب العزت کا بے پناہ شکریہ ادا کیا اور کہا کہ محض اسی کی توفیق سے یہ کام ہوا ہے او رہورہا ہے او رآئندہ بھی اسی کی توفیق سے جاری رہے گا۔ ان پچیس سال کی مدت میں کئی امتحان کی گھڑیوں سے بھی گذرنا پڑا لیکن اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص کرم فرمایا۔ بس جو کچھ ہے وہ اللہ کا فضل ہے۔ 
    ضیا ء ایجوکیشنل ٹرسٹ کی پچیس سالہ خدمات پر رودادِ ضیاء کے نام سے ایک کتاب کا رسمِ اجراء مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری صاحب کے دستِ مبارک سے عمل میں آے۔ اس کے ساتھ ساتھ مفتی صابر حسین ندوی کی تصنیف فقہ اسلامی کی تدوین ضرورت واہمیت اور بنیاد خدوخال، مفتی عبدالکریم ندوی گنگولی کی کتاب عربی ادب کی مختصر تاریخ اور رمضانیات پر عالیہ ثالیہ شریعہ کے طالب علم محمد مزمل ساگر کی کتاب کا بھی اجراء اسٹیج پر موجود معزز مہمانوں کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 
    پروگرام میں جامعہ ضیاء العلوم کے فارغین نے اپنے اپنے تأثرات پیش کرتے ہوئے اپنی دینی اور دعوتی مصروفیات پر روشنی ڈالی اور اسے اپنے مادرِ علمی کا فیض قرار دیا اور اپنے اساتذہ، خصوصاً مولانا عبیداللہ ابوکر ندوی، مولانا محمد الیاس ندوی، مولانا عبدالرافع ندوی اور دیگر اساتذہ کی کوششوں کو بھی سراہا۔ جن میں قابلِ ذکر مولانا عبدالمعز بنگلوری، مولانا نثار شریف ندوی، مولانا فرحان قاضی ندوی، مولانا تبریز کیرلا، قاضی سمیر ندوی، مولانا آصف ندوی اور دیگر شامل ہیں۔ 
     پروگرام کی صدارت قاضی جماعت المسلمین بھٹکل، صدر جامعہ اسلامیہ بھٹک، مجمع الامام الشافعی العالمی کے صدر محترم مولانا محمد اقبال صاحب ملاندوی فرمائی اور نظامت کے فرائض مفتی عبدالکریم ندوی گنگولی نے بحسنِ خوبی انجام دئیے۔ 

سبب کے دائرے میں رہ کر مسبب کی معرفت ضروری :  مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری 

سبب کے دائرے میں رہ کر مسبب کی معرفت ضروری ہے۔ آج یہی صورت مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ہر طرف سبب کو پڑھایا جارہا ہے لیکن مسبب کی پہچان نہیں ہورہی ہے۔ یہی وہ مدارس ہیں جن کے ذریعہ سے مسبب کو پہنچاننے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ آج یہ مدارس نہ ہوتے تو اس کا موقع میسر ہونا مشکل ہوتا۔ ان باتوں کا اظہار دار العلوم ندوۃ العلماء کے استادِ حدیث حضرت مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری نے کیا۔ مولانا نے اپنے خطاب میں مدارس کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ علم نافع کے حصول کے لیے جتنی کوششیں کی جائیں وہ سب محمود ہیں لیکن ان کوششوں کو مزید آگے بڑھانے کے لیے ہم سب کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ علم غیر نافع کی مختلف صورتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج ایک بڑی تعداد شریعت کو پرانے ہونے سے تعبیر کرتے ہیں وہ جواب دیں کہ سورج، سمندر، ندی، دریا، چاند اور پہاڑ بھی پرانے ہوچکے ہیں، اس سے معلوم ہوا ہے کہ ان چیزوں کے پرانے ہونے سے ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تو شریعت جب سے اس دنیا کو ملی ہے اس وقت سے آج تک اسی آب وتاب کے ساتھ زندہ ہے۔دین کے لیے کوششیں کرنے پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے نزول کے متعلق مولانا نے کہا کہ جہاں اللہ کا نام لیا جاتاہے وہاں اللہ تعالیٰ معیشت کے بھی دروازے بھی کھول دیتے ہیں، ایک وہ وقت تھا جب ایک چھوٹی سی مسجد اور دو کمرے تھے۔ آج اسی جامعہ کے فیض سے یہاں پختہ عمارتیں تعمیر ہوئیں ہیں اور قصبہ کی تصویر بھی بدلی ہے جس کو میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے قیام کے وقت دیکھا کرتا تھا۔ دوسری طرف جہاں قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں نہیں گونجتی اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوششیں نہیں کی جاتیں تو وہاں پر لاکھوں روپئے موجود ہونے کے بعد بھی زندگی کے حقیقی سکون سے محروم ہیں اور آخرت میں انہی لوگوں کی روشنی چھین لی گئی۔ 
قرآن کریم کی آیتوں کی برکتوں پر مولانا نے کہا کہ قرآن کریم کی آیتوں کی برکت سے اللہ کی رحمتوں کا نزول نہ صرف زندہ لوگوں پر ہوتا ہے بلکہ قبر میں آرام کرنے والوں پر بھی اس کی ان گنت رحمتیں نازل ہوتی ہیں جس کے بارے میں ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عذابِ قبر سے نجات دلادیتے ہیں۔ آج مغرب کو دیکھ لیجئے وہ بڑی تعداد میں اپنے بچوں کو حافظِ قرآن بنارہے ہیں، ان کے مکاتب آج اس سے بھرے ہوئے ہیں اور گویا ان کا عقیدہ ہوتا جارہا ہے کہ قرآن پاک حاصل کرنے والا دنیاوی ڈگریاں آسانی کے ساتھ ساتھ حل کرسکتا ہے۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ یہ تعداد سمٹ رہی ہے۔ 
    مولانا نے اپنے خطاب میں جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کی خدمات کو سراہا اور اس کو مزید آگے بڑھانے پر زور دیا۔ 
    استاد فقہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو مولانا عتیق احمد بستوی نے کہا کہ مکتب میں پڑھانے والے کا بھی وہی مقام ہے جو بڑے بڑے مدارس اور اسکولوں میں پڑھانے والوں کا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ اس سے بڑھ کر بھی ہوسکتا ہے۔ مولانا ہی دعا پر یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا