English   /   Kannada   /   Nawayathi

کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک لوگ خوف و ہراس اور مایوسی میں مبتلا! وزیرِ اعظم ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کو مطمئن کریں: مولانا سید ارشد مدنی

share with us

نئی دہلی:20اکتوبر2019 (پریس ریلیز) ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظرآج مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا سید ارشد مدنی منعقد ہوا ، اجلاس مجلس عاملہ کی کارروائی کا آغاز ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اجلاس میں بابری مسجد مقدمہ ، این آر سی، کشمیر ،آسام شہریت معاملہ سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بدتر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا ساتھ ہی دوسرے اہم ملی ،سماجی اورعالم عرب کے ایشوز پر تفصیل سے غور و خوض ہوا ،اس اہم اجلاس میں ممبران نے ملک کے موجودہ حالات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔ اس پس منظر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملک میں جس طرح کے حالات پیدا کردیئے گئے ہیں اس میں کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک لوگ خوف وہراس اور مایوسی میں مبتلا ہوچکے ہیں ، ایک طرف جہاں آئین وقانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے وہیں عدل و انصاف کی روشن روایت کوبھی ختم کردینے کی خطرناک روش اختیارکی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانبداری اور رواداری کے لئے مشہورہے ،سیکولرازم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے ،آج ملک میں اقلیتوں خاص طورسے مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے اب تک بہت سے لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر آئین اور قانون کی بالادستی قائم نہیں رہی تو یہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوگا ،مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند اپنے قیام سے آج تک ملک میں اتحاد ویکجہتی ، امن وآشتی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لئے سرگرم رہی ہے ،جمعیۃ علماء ہند کا یہ مشن آج اور بھی ضروری ہوگیا ہے ، کیونکہ ایک خاص سوچ اور نظریہ کی متحمل سیاسی قوتیں ملک کو سیکولرازم اور مذہبی غیر جانبداری کی راہ سے ہٹاکر پورے ملک میں نفرت اورفرقہ پرستی کا ماحول پیداکرنے کے درپے ہیں ،انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ صدیوں سے مل جل کر ساتھ رہتے آئے ہیں، اس ملک کی مٹی میں ہمارے بزرگوں کا لہو شامل ہے، ان کی قربانیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کیوں کہ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے نہ کہ کسی پارٹی کا ، آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص مذہب کے نظریہ کی بنیاد پر چلے گا یا آئین و سیکولرازم کے اصولوں پر ؟ مولانا مدنی نے انتباہ دیا کہ ہندوستان میں کسی ایک نظریہ اور مذہب کی بالادستی چلنے والی نہیں ہے ،یہ ملک سب کا ہے یہ ہمیشہ سے گنگاجمنی تہذیب کا علمبردار رہاہے اور اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے ۔ ماب لنچنگ کے واقعات سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے ِ؟صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ضمانت ملنے پر ان ملزمین کاسیاسی لوگ استقبال کرتے ہیں انہوں نے سوال کیاکہ کیا یہی سب کاساتھ سب کا وکاس اورسب کا وشواش ہے؟ ۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہجومی تشدد ایک مذہبی مسئلہ ہے جس میںمذہبی بنیادپر لوگوں کوتشدداور بربریت کانشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں میدان عمل میں کھل کر سامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدام کریں، صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے حالات اس وقت انتہائی خراب ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اس طرح کے حالات ملک کے تقسیم کے وقت بھی نہیں تھے۔مولانا مدنی نے اس پس منظر میں کہا کہ ان حالات میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،اس ملک کی مٹی میں محبت کا خمیرشامل ہے۔ یہی وجہ ہے مختلف مذاہب ،تہذیبوں اور زبانوں کے لوگ صدیوں سے پیار محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں، ہمارا اختلاف اور لڑائی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ،صرف ان طاقتوں سے ہے جنہوں نے ملک کی سیکولر قدروں کو پامال کرکے ظلم وجارحیت کو اپنا شیوہ بنالیا ہے ، لیکن افسوس کہ عوام کے ذہنوں میں پہلے گائے کے نام پر اور اب جے شری رام کے نام پر مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ مگرامید افزابات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ افسوس اس پر ہے کہ سپریم کورٹ کے سخت ہدایت کے بعد بھی مرکزی سرکار قانون سازی نہیں کررہی ہے اور بے گناہوں کی ہلاکت کو روکنے کے لئے مؤثر اقدامات سے پہلو تہی کررہی ہے۔ملک کے حالات بلاشبہ مایوس کن اوربڑی حدتک خطرناک ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ہر گز ضرورت نہیںہے کیونکہ ہم ایک زندہ قوم ہیںاورزندہ قومیں حالات کے رحم وکرم پرنہیں رہتی بلکہ اپنے کرداروعمل سے حالات کا رخ پھیردیتی ہیں اگر عزم مضبوط ہو تو مایوسی کے انہیں اندھیروں سے امید کی نئی شمعیں روشن ہوسکتی ہیں۔
اس اہم اجلاس میں جو اہم تجاویز منظور ہوئیں اس کی تفصیل یہ ہے ۔
تجویز نمبر ۱ بابری مسجد تنازعہ سے متعلق اس قرارداد میں کہاگیا کہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس مورخہ 18اکتوبر 2019بابری مسجد کے معاملہ پر غوروفکر کے بعد بابری مسجد کی تاریخی ، قانونی اور شرعی حیثیت کے پیش نظر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ بابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی ، چاہئے بزورحکومت وطاقت اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے ، اس لئے کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی متبادل کی امید میں مسجد سے دستبردار ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق و شواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندرکو منہدم کرکے یا کسی مندرکی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے ، انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد وقف علی اللہ ہوتی ہے ، اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ وہ مسجد کی زمین واپس لے اور وقف بورڈ کا صدر یا چیئر مین صرف اس کا منتظم اور نگراں ہوتا ہے ، مالک نہیں، یہ تولیت کا مقدمہ نہیں بلکہ حق ملکیت کا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے ، لہذا جمعیۃ علماء ہند اس بارے میں اپنے پرانے موقف پر قائم ہے ، قانون اورشواہد کی بنیادپر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا مسلمان اس پر مطمئن ہوگا۔ جمعیۃ علماء ہند تمام شہریوں سے خاص طور سے مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔
تجویز نمبر ۲ :جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس کشمیر کے موجودہ حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے ، دفعہ 370کے منسوخی کے بعد سے آج تک ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود جموں وکشمیر کے حالات قابو میں نہیں ہیں ،عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامناہے ، بیماروں کو علاج کی سہولیات میسرنہیں آرہی ہے ، ڈائلیسس کے مریضوں اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد نہایت کسمپرسی کا شکار ہیں ، کورٹ معطل ہیں ، اسکول اور کالج ٹھپ پڑے ہوئے ہیں ، بازار بندہیں روزانہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے دانے دانے کے محتاج ہوگئے ہیں ، اور سیکڑوں نوجوانوں کو ملک کی مختلف جیلوں میں اس طرح قید کردیا گیا ہے کہ کسی کو ان کی کوئی خبر نہیں ہے ،جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس اس بات پر یقین رکھتاہے کہ مسائل صرف اورصرف گفت و شنید ہی سے حل ہوسکتے ہیں، اس لئے حکومت کو
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بات چیت کا روازہ کھلا رکھنا چاہئے اور کشمیریوں کو اعتماد میں لیکر معاملات کو حل کرنا چاہئے ۔ طاقت کے بل پر عوامی تحریکوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہمیں کشمیریوں کے دل جیتنے کی اشد ضرورت ہے ؛اس لئے کہ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ کشمیری بھی ہمارے ہیں۔ دفعہ 370 کے حوالہ سے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کااجلاس یہ محسوس کرتاہے کہ یہ معاملہ کورٹ میں ہے ہمیں امید ہے کہ عدالت سے کشمیریوں کوانصاف ملے گا ا ور ان کے حقوق کے تحفظ کی راہیں ہموار ہوں گی ۔
تجویزنمبر ۳: جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وزیر داخلہ امت شاہ جی کے این آرسی کے سلسلہ میں دیئے گئے بیان پر تشویش کا اظہار کرتا ہے جس میں انہوں نے غیر ملکی ہندوؤں ، بودھشٹوں ، جینیوں ، سکھوں اور کرسچنوں کو قانون بناکر ہندوستانی نیشنلٹی دینے کا وعدہ کیا ہے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں خاموشی اختیارکرتے ہوئے دراندازوں سے ملک کو پاک کرنے کا عہد کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ ان کے نشانہ پر صرف مسلمان ہیں ، جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ وزیر داخلہ حکومت ہند کے اس بیان کو آئین ہند کی دفعہ (14اور 15) کے منافی سمجھتی ہے ، جس کی روسے کسی کو مذہبی ، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر تعصب کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے دلیل کے طورپر یہ کہنا کہ ہندوؤں کا دنیامیں کوئی ملک نہیں ہے جبکہ مسلمانوں کے بہت سے ممالک ہیں ، اس لئے غیرمسلموں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور مسلمانوں کونہیں ایک بے بنیاد بات ہے ۔ یورپ ، امریکہ ،افریقہ وغیرہ اور بعض خلیجی ممالک جو غیر ملکیوں کو شہریت دیتے ہیں وہ بلاتفریق مذہب ہر خواہش مندکو کاغذی کارروائی کی تکمیل کے بعد حق شہریت دیدیتے ہیں، اس لئے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ہوم منسٹرکے این آرسی کے سلسلہ میں دیئے گئے بیان کی پُر زور مذمت کرتاہے اور اس کو مذہب کی بنیاد پر تعصب اور نفرت کی سیاست کا ایک حصة سمجھتاہے ،۔اسی طرح آسام این آرسی کے سلسلہ میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس ری ویر یفکیشن کے مطالبہ کی شدید مذمت کرتاہے اور حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ سترسال کی محنت اور جدوجہد کے بعد این آرسی کا جو کام مکمل ہوا ہے اس کو ری ویریفکیشن کے ذریعہ ضائع کرکے صوبہ میں امن وامان کے لئے خطرات نہ پیداکئے جائیں ۔
تجویز نمبر۴: جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ عالم اسلام کے موجودہ حالات کو انتہائی تشویش کی نظرسے دیکھتی ہے، افغانستان ایک زمانہ سے بڑی طاقتوں کا میدان بناہواہے ، جس نے اس غریب اسلامی ملک کو امن ومعیشت کے اعتبارسے تباہ کررکھا ہے۔ عراق کی موجودہ صورتحال جہاں فقروتنگ دستی کے شکارلوگ جان سے بے پرواہ ہوکر سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں انتہائی خراب ہے۔ تمام دنیاکے مسلمانوں کی دل کی دھڑکن سعودی عرب یمن کے ساتھ جنگ کی بنیادپر ہرطرح سے نقصان کا شکار بنا ہوا ہے ۔ فلسطین جہاں عرب کم و بیش 80سال سے ہر طرح کے مظالم کا شکار ہیں اور اب قبلہ اول بھی (خدانخواستہ) یہودیوں کے نشانہ پر ہے ، ساری دنیا کے مسلمان بالخصوص عرب بے دست و پا حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیںاور کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔ لیبیا جیسا تیل کی قدرتی دولت سے مالا مال ملک خانہ جنگی جیسی صورتحال کا سامنا کررہا ہے ۔ مصرکی حکومت بھی موجودہ حالات میں اندرونی خلفشار سے دوچارہے ۔ شام چندسالوں کی متواتر خانہ جنگی کی بنیاد پر اتنا تباہ ہوچکاہے کہ اس کا پہلی شکل پرآنا محال معلوم ہوتا ہے ۔ لاکھوں شامیوں کا دنیا کے ملکوں میں رفیوجی بن کر، بچوں اورعورتوں کا بھکاری بن کر برباد زندگی گزارنا ہر مسلمان کے لئے انتہائی افسوس ناک اور دل کو دہلا دینے والا حادثہ ہے۔ اس حالت میں ترکی حکومت کا (جس سے جمعیۃ علماء ہند کا خلافت عثمانیہ کے زمانہ میں بڑا مضبوط رشتہ رہا ہے) شام کے بسنے والے کردوں پر حملہ کرنا جمعیۃ علماء ہند کی نظرمیں ایک ایسا قدم ہے جس سے دنیا کی بڑی طاقتوں کومشرق وسطی بالخصوص ترکیا میں بھی اپنے پنجے جمانے کا موقع میسر ہوجائے گا۔ ترکی کی موجودہ حکومت جو اسلامی نظریہ کے پروان چڑھنے کے بہترین موقع کی شکل میں وجودمیں آئی تھی ، پروان چڑھنے سے پہلے مغربی طاقتوں کے کود پڑنے کی بناپر بے دست و پا اور برباد ہوجائے گی ، یورپ اور امریکہ کے عزائم جو اخبارات میں آرہے ہیں وہ ترکی حکومت کے لئے خدا نخواستہ تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس لئے جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی مذکورہ خطرے کے پیش نظر دل کی گہرائیوں سے ترکی حکومت کو یہ مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتی ہے کہ خدا را گرد و پیش کے ماحول کو دیکھ کرترکی حکومت فی الفورامن کے ماحول کو پیداکرے اور بڑی طاقتوں کے حرکت میں آنے سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بجائے گفت و شنید کے ماحول کو آگے بڑھائے۔ ہماری دعاہے کہ اللہ تمام عالم میں چین وسکون اور امن و امان کے فضاء کو پیدا فرمائے ۔ آمین
تجویز نمبر۵ تعلیم کے فروغ پر جمعیۃ علماء ہند کی توجہ روز اول ہی سے رہی ہے ، مکاتب و مدارس کے قیام اوراساتذہ کے انتظام کے ساتھ عصری و ٹیکنکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب و ضرورت مندطلباءکے لئے تعلیمی وظائف دینے کا مسلسل کام جاری ہے اور اس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں ۔اسی تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس سال بھی مجلس عاملہ نے پچاس لاکھ روپے تعلیمی وظائف کے لئے منظور کیا ہے۔
صدرمحترم نے اجلاس مجلس منتظمہ کے التواء کے اسباب تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں مجلس منتظمہ کا اجلاس شمالی ہندستان میں کرنا مشکل نظرآرہا ہے اور جماعتی نظام اور مسائل کے لحاظ سے اس کا انعقاد بھی ضروری ہے لہذا غوروفکر کرکے جگہ کی تعیین ضروری ہے ، اس سلسلہ میں جمعیۃ علماء آندھرا پردیش و تلنگانہ نے حیدرآباد میں اجلاس کے لئے دعوت دی ، گجرات اور راجستھان کے لوگوں نے دعوت دی ،غوروخوض کرکے مجلس عاملہ نے طے کیا کہ فی الحال حیدرآباد میں اجلاس مناسب رہے گا، چنانچہ حیدرآباد میں اجلاس مجلس منتظمہ اور اجلاس عام کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ،جس کی تاریخ کاا علان قانونی کاروائیوں کے مکمل ہونے بعد جلد ہی کیا جائے گا۔ورکنگ کمیٹی نے ریاستی، ضلعی اور مقامی یونٹوں کو متوجہ کیا کہ جمعیۃ علماء ہند کے تعمیری پروگرام خصوصاً اصلاح معاشرہ کے پروگرام بطور تحریک چلائیں جس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب ہوسکے۔ اجلاس مجلس عاملہ میں مرحومین خاص کر صاحبزادہ شیخ الحدیث پیرجی مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ؒ پیر طریقت مولانا افتخارالحسن کاندھلوی وغیرہ کے انتقال پرملال پر رنج وغم کا اظہار اور ان کے لئے دعاء مغفرت کی گئی ، اس میں ایک تجویز منظور کی گئی اجلاس کی کارروائی صدرمحترم مدظلہ کی دعاء پر اختتام پذیر ہوئی۔ اجلاس میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی ، ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا سید اسجد مدنی، مولانا سید اشہد رشیدی ، مولانا مشتاق عنفر، مولانا عبداللہ ناصر، مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی، مولانا مفتی غیاث الدین قاسمی ، مولانا عبدالرشید قاسمی ، مولانا فضل الرحمن قاسمی، الحاج حسن احمد قادری ، الحاج سلامت اللہ ارکان کے علاوہ مولانا حبیب اللہ قاسمی ، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا محمد خالد قاسمی، مولانا مفتی عبدالقیوم منصوری وغیرہ بطور مدعو خصوصی شریک ہوئے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا