English   /   Kannada   /   Nawayathi

کشمیر: چھلک جاتا ہے پیمانہ اگر بھرپور ہوتا ہے

share with us

 


غم بے حد میں کس کو ضبط کا مقدور ہوتا ہے چھلک جاتا ہے پیمانہ________ اگر بھرپور ہے     

 

محمدصابرحسین ندوی


کشمیر کا مسئلہ گنجلک ہوتا جارہا ہے، کرفیو کا تسلسل باقی ہے، مہینہ نہیں بلکہ دنوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، قید وبند کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی ،اس سے ایک طرف ذہنی ارتقا رک جاتی ہے تو دوسری طرف انسانوں کے اندر جینے کی خواہش مر جاتی ہے، تعلیمی نظام بگڑ جاتا ہے، اور پرورش کے نام پر بس خوف و ہراس کے سوا کچھ نہیں رہتا، کشمیر ا س وقت دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ ہے، اسکول و کالجز بند ہیں، اور نوکریوں کا سلوگن دیا جارہا ہے،نظام زندگی پر شب خوں مار کرمستقبل کی پلاننگ بتلائی جارہی ہیں، ترقی کی راہوں کا خواب دکھلایا جارہا ہے، عورتیں لٹی پٹی جارہی ہیں اور عورت کی آزادی اور انہیں بہتر زندگی کی یقین دہانی کراوئی جارہی ہے، لوگوں میں چیخ و پکار مچی ہوئی ہے، بچے بلک بلک کر مر رہے ہیں، وہ نوزائد بچے جنہیں ماں کے علاوہ کا دودھ پینے کی عادت ہے، اور وہ مائیں جو خود اپنے پیٹ کو باندھے ہوئی ہیں، بھلا کیسے تر سینہ رکھیں گی اور نونہالوں کو شکیم سیر کریں گیں؟ وہ بوڑھے جو یومیہ دوائیوں اور انجکشن کے سہارے جیتے ہیں، وہ بلڈ پریشر اور حرکت قلب کے مریض جن کیلئے لمحہ لمحہ میڈیکل امداد کی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کر اس قید خانہ میں اپنی ضرورتیں پوری کرپا تے ہوں گے، چنانچہ ایک اخبار کی رپورٹ کہتی ہے کہ وہاں بھوک سے مرنے والوں کی لاشیں بھی سڑ نے لگی ہیں، انہیں دفنانے کی بھی اجازت نہیں ہے، وہ دو گز زمین کو بھی ترس رہے ہیں، بے چینی کی موت اور بے قراری کی یہ آخری خواب گاہ۔ خاک وطن نے انہیں اپنے ہی خاک سے دور کردیا، اجنبیت کی دنیا میں دھکیل دیا؛ لیکن________:
سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ
یہاں سب اپنے اپنے پیرہن کی بات کرتے ہیں   
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے نعشوں کیلئے اپنے گھر کی زمین ہی وقف کردی گئی ہے، بیماریوں سے مرنے والے اور ضروری علاج سے بے بہرہ لوگ سسک سسک کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں،ڈیجیٹل نیوز کے مطابق عالم یہ ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر دوائیوں کی شکایت کرے اور مریضوں کی بے بسی کا رونا روئے تو گرفتار کر لیا جاتا ہے، فوجیوں کے مظالم سے بی بی سی اور الجزائر جیسے عالمی نیوز چینلوں نے پردہ اٹھایا، ورنہ ہندوستانی میڈیا حکومت کے تلوے چاٹ رہی ہے، اس نے پیٹ کی خاطر انسانیت کو بیچ دیا ہے، دو ٹکوں کیلئے انسانی تاریخ کو مسخ کردیا ہے، وہ انسان پروری کے بجائے انسان دشمن بن گئے ہیں، انہیں سب کچھ ٹھیک نظر آتا ہے، بغیر بنیادی سہولتوں کے زندگی کیسی ہوتی ہے؟ اس سے وہ یوں نادانی کا اظہار کرتے ہیں، جیسے کوئی مجنون اپنے درد سے، کوئی دیوانہ اپنے داستان عشق سے، کوئی غم کا مارا اپنے غم یاراں سے۔ کچھ بھی کہئے لیکن خبریں اپنا راستہ ڈھونڈ لیتی ہیں، ویسے ہی جیسے بہتے پانی کو کوئی روک نہیں سکتا، بو اپنا تعارف خود دیتی ہے، چنانچہ ظاہری ملمع سازی پر عالمی نیوز رپورٹرس نے بخیہ ادھیڑ دی ہے، وہاں کی ہر خبر دل لرزاں اور ترساں کر دینے والی اور آنکھیں چھلکا دینے والی ہیں، لاکھ قساوت قلبی کے باجود زیر چشم اندھیرا چھا جاتا ہے، اور محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی عکاس بس یہی ہے:
چھری پہ چھری کھائے جائے ہے کب سے
اور اب تک جئے ہے کرامت____ کرے ہے
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر:معصوموں کے درد و آہ اور ان کے پھٹتے دامن اور چاک گریباں کے پیرہن کے ٹکڑوں کا شامیانہ بنا ہوا ہے، وہاں اہل جنوں کی بستی ہے، وہاں اہل خرد اپنی گزرگاہ نہ بنائیں،ذہن سے مفلوج اور نرم دل سے عاری قطعا ا س کا رخ نہ کریں، انہیں حق ہے کہ وہ زمانے سے کہ دیں:
نہ آئیں اہل خرد وادی جنوں کی طرف یہاں گزر نہیں دامن بچانے __والوں کا   
وادی کشمیر کی سبزہ سے لہو میں ٹپکتی صداوں کے درمیان خاص طور پر جب سروں سے اڑتے دوپٹوں کی پکاریں، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کی گہاریں، محبت  کی ماری اور غم کی ستائی ہوئی آوازیں، اور اپنوں کو کھونے میں سینہ کا جوش اور ابلتی نگاہوں کے اشکوں کی سرسراہٹ کانوں میں پڑتی ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے گرم سلاخیں کانوں میں ڈال دی ہیں، اور یہ تمنا دل میں ٹیس مارتی ہے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور یہ جبور بدن اس میں دھنس کر اس کا پیوند ہوجائے،یہ بات بھی زبان زد ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈوں نے نہتھے اور مجبور صنف نازک کشمیریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، کہتے ہیں کہ سول ڈریسز میں وہ گھروں کے اندر، بالاخانوں میں اور آرام گاہوں میں بے دریغ گھسے جا رہے ہیں، بنت حوا کو اغوا کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، وے آواز لگا رہی ہیں مگر کوئی سنتا نہیں! کوئی توجہ نہیں دیتا،سبھی اپنے اپنے کانوں میں تیل ڈال کر سوئے پڑے ہیں، لہذا ان کا زخم ناسور ہوتا جاتا ہے، زخم کی تہیں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں، درد ہی دوا اور دوا ہی درد بن جانے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بس کوئی شعلہ پھٹنے کو ہے، کوئی چنگاری پورے جوش و خروش کے ساتھ فضا میں بلند ہونے کو بیتاب ہے، سمندر کی خموشی بتلاتی ہے کہ کوئی عظیم قہر انگیز سیلاب آنے کو اور اپنے ساتھ ہر چیز زمین دوز کردینے کو مستعدہے،اور اس آگ میں گھی کا اور اس خموش سمندر میں تلاطم پیدا کرنے کاکام ہندوستانی حکومت کا رویہ کر رہا ہے، دنیا کی تعلیمی و تربیتی اکیڈمیوں سے پوچھئے! وہ بتائیں گے کہ سختی اگر حد سے زائد ہوجائے تو انسان کے دل کو چیر دیتی ہے، اس کا سینہ انتقام کے طوفان سے بھر جاتا ہے، پھر وہ سیلاب بلا خیز بن کر بہتا ہے، وہ خود بسمل ہو کر ہر ایک کو قربان کردینے کے درپے ہوتا ہے، وہ خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا لے جاتا ہے، وہ گرجتا ہی نہیں؛ بلکہ برستا بھی ہے، وہ بادل کا ٹکڑا ٹوٹ کر آشیانے پر گرتا بھی ہے،وہ بجلی بن کر ہر چیز کو خاکستر کردیتا ہے، اور سب کچھ ملیامیٹ کر دیتا ہے، نام ونشان مٹادیتا ہے، اسے قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیتا ہے۔
کلیجہ تھام لو، روداد غم ہم کو سنانے دو
تمھیں دکھا ہوا دل ہم دکھاتے ہیں دکھانے دو     
کہتے ہیں’’کسی کو اتنا بھی مت ڈراو کہ اس کا ڈر ہی ختم ہوجائے‘‘،اور عربی زبان میں کہاوت ہے: ’’قد یحمل العیر من ذعر علی الاسد‘‘ یعنی اونٹ اپنی کمزوریوں کے باجود اگر اسے بھڑکادیا جائے اور اسے مجبور کردیا جائے، ڈر و خوف کے اندیشوں میں اسے مبتلا کردیا جائے تو وہ بھی شیر پر حملہ بول دیتا ہے، اپنی ضعیفی کی پرواہ نہیں کرتا، انجام کے بارے میں نہیں سوچتا۔ چنانچہ یہی سلوک اگر انسانوں کے ساتھ ہو تو وہ دنیا کا سب سے خطرناک شخص ہوتا ہے، اگر یہی کام پوری قوم کے ساتھ کیا جائے، تو وہ پوری قوم انقلاب انگیز طور پر ابھرتی ہے، آسمان نئے نئے مناظر دکھاتے ہیں، حریم ظلمت کے سارے پردے چاک کردئے جاتے ہیں، زمین پچھاڑے کھاتی ہے، اور کلی کلی چٹک کر گلوں کی چھاتی ہلادیتی ہے، کشمیر کے متعلق صاف اندازہ ہوتا ہے؛ کہ کوئی منظر انقلاب عام ہونے کو ہے، جی ہاں ! ایسا ہوگا اور ضرور ہوگااورہاں! یہ کسی عالمی طاقتوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ (ہمیں یہ کہنے اور ماننے میں کوئی دشواری نہیں) جو کچھ امیدیں ہیں، انہیں سے ہیں، ان کے علاوہ عالمی طاقتوں کو چھوڑئیے ہندوستانی عوام بھی بہت حد تک قابل اطمینان نہیں؛ مسلمانوں کا رویہ بے حد افسوسناک ہے، وہ سب ناداں سجدے میں گر گئے ہیں، ان کی کیفیت کو کلیم عاجز صاحب کا یہ شعر خوب بیان کرتا ہے:
مزا یہ ہے لئے بھی جا رہے ہیں جانب مقتل
تسلی بھی دئے جاتے ہیں، سمجھائے بھی جاتے ہیں 
استاذ گرامی حضرت مولانا عمر عابدین صاحب کا یہ اقتباس دل کو چھو لیتا ہے، آنکھوں سے خون کے آنسو ٹپکتے ہیں اور دل سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے؛ کہ ہم کس صدی میں اور کن لوگوں کے درمیان جی رہے ہیں، اور اسلام کے ماننے اور مسلمان ہونے کا دم بھر رہے ہیں، کیا ہم اتنے کمزور ہوگئے ہیں؟ کیا ہماری پالیسیاں محض اپنے مفاد تک سمٹ کر رہ گئی ہیں؟ ہمیں دوسروں کا درد بالخصوص اپنے مسلمان بھائیوں کی آہیں سنائی نہیں دیتیں؟ کیا ظلم کو ظلم کہنے اور اس کے سامنے ڈٹ جانےکو ہم ایمان کا حصہ نہیں سمجھتے ؟مولانا کہتے ہیں:
’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا____ کسی سربراہ و قائد کیلئے یہ ضروری ہے کہ  وہ وقت اور حالات کے مطابق ترجیحات کا تعین کرے؛ جب وادی کشمیر خاک و خون سے لالہ زار ہو، تو تحفظ ماحولیات کیلئے تخم ریزی و شجر کاری کی جائے۔ جب ہجومی قتل سے بے گناہ دم توڑ رہے ہوں؛ تو بھائی چارہ کی دہائی دی جائے۔ تو سمجھ لیجئے کہ یہ قیادت برائے منصب ہے نہ کہ برائے مقصد!!‘‘۔ اگرچہ مولانا کے بیان اور انداز بیان سے بھی اختلاف کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن قابل غور امر ضرور ہے، سوچئے اور سوچئے! اور عامر عثمانی صاحب کا یہ شعر بھی پڑھتے جائیے:
 میری تازہ لاش پہ عامر دنیا نے جب شور مچایا
وہ اک سمت اشارہ کر کے خود بھی چیخے قاتل قاتل


 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا