English   /   Kannada   /   Nawayathi

آخر کدھر جارہا ہے گاندھی کے سپنوں کا ہندوستان؟مودی راج میں مسلمان ہونے کا مطلب؟

share with us



تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    ”میں نے گھر بنوایا اور کسی مسلم مزدور یا کاریگر کی مدد نہیں لی“یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکا ہے۔شدت پسند ہندو اسے اس لئے شیئر کر رہے ہیں کہ انھیں لگتا ہے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی مہم کو بڑھاوا دے کروہ مسلمانوں کو سبق سکھاسکتے ہیں تو مسلمان اس لئے شیئر کر رہے ہیں کہ وہ بتاسکیں کہ ان کے ساتھ بھارت میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ اس سے پہلے ایک خبر  یوپی کی راجدھانی لکھنؤ سے آئی تھی کہ وشوہندو پریشد سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ابھیشیک مشرا نے ٹیکسی بک کرائی اور جب معلوم ہوا کہ ڈرائیور مسلمان ہے تو اپنی بکنگ کینسل کرادی،ا س بات پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔ابھیشیک مشرا کا  کا کہنا ہے کہ وہ اپنا پیسہ’جہادیوں‘ کو نہیں دینا چاہتا، لہٰذا بکنگ کینسل کرادی۔مسلمانوں کے بائیکاٹ کی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جسے بہت سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا مگر کیا اس قسم کے واقعات سماجی تقسیم کی جانب اشارہ نہیں کرتے ہیں؟اس وقت پورے ملک سے ایسی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں جواس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ محبت وبھائی چارہ کے ملک ہندوستان کی سرزمین مسلمانوں کے لئے تنگ پڑتی جارہی ہے۔انھیں نہ صرف اقتدار میں حصہ داری سے دور رکھا گیا ہے بلکہ معاشرے میں بھی انھیں الگ تھلگ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں جن کی مثال کچھ واقعات کو ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔   
مذہب بدلو یا گھربدلو
    بھارت میں ہندو۔مسلم کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کوئی نئی نہیں ہے۔2019کا لوک سبھا الیکشن کسی ایشو کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ اسی تقسیم کے نام پر ہوا۔پاش کالونیوں میں مسلمانوں کو گھر نہ دینے کی بات بار بار میڈیا میں آتی رہی ہے۔ ایسی ہی ایک خبر راجدھانی دلی سے ہے۔ ایک مسلمان فیملی، مسلم بستی کو چھوڑ ایک پاش کالونی میں اچھا ماحول پانے کے لئے چلی گئی۔ اسے لگا کہ روہنی ایک پاش علاقہ ہے اور یہاں رہنے والے ہندو غیرمتعصب ہیں مگر جو تجربہ ہوا وہ انتہائی تکلیف دہ اور بھارت کی گنگا۔جمنی تہذیب کے خلاف تھا۔ اشرف علی روہنی سیکٹر25پاکٹ 1 میں رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے پڑوس میں رہنے والے ایک شخص نے انھیں کہا کہ تم ہندو ہوجاؤ یا گھر چھوڑ دو۔ دباؤ اس قدر بڑھایا گیا کہ انھیں جھوٹے ریپ کیس میں جیل جانا پڑا اور چھ مہینے بعد جب وہ جیل سے واپس لوٹے تو ان کی ڈی ایچ ایف ایل میں منیجر کی نوکری چھوٹ گئی۔ان کی بچیوں کو اسکول سے نکال دیا گیااور آج وہ دانے دانے کو محتاج ہیں۔ فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔ اشرف علی کے مطابق ان کی دوچھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں،جن کے ریپ کی دھمکی دی جاتی ہے اور شکایت پر پولس کاروائی بھی نہیں کرتی ہے۔ اشرف علی کا مزید کہنا ہے کہ جس لڑکی نے ریپ کا الزام لگایا تھا،اس کی ماں کیس واپس لینے کے لئے پانچ لاکھ روپئے مانگتی ہے۔ 
 ہندو۔مسلم جوڑے کی زندگی مشکل
    پاش کالونی میں مکان نہ ملنے کے سبب مسلمانوں کی الگ تھلگ بستیاں بستی جارہی ہیں اور ہر شہر میں ایک مسلم علاقہ بس گیا ہے۔ نریندر مودی کے گجرات سے بھی ایک کیس سامنے آیا تھا۔ معاملہ ورودرا کا ہے۔ 13 سال پہلے کچھ علاقے کے ایک ہندو نوجوان امت شرمانے ایک مسلمان لڑکی مسرت جعفری سے شادی کرلی۔ان کے دو بچے ہوئے اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر حال ہی میں جب نوکری کے سلسلے میں انھیں ورودرا آنا پڑا اور سن فرما روڈ پر انھوں نے ایک کرایے کا گھر لیا تو پہلے سب ٹھیک رہا مگر جب ہندو پڑوسیوں کو پتہ چلا کہ ان کے پڑوس میں رہنے والی خاتون مسلمان ہے تو پھر اس کا سماجی بائیکاٹ شروع ہوگیا اور مالک مکان راما ایئرنے گھر چھوڑنے کا نوٹس دے دیا۔اس سلسلے میں امیت شرما کا کہنا ہے کہ ہم نے شادی کرکے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہے۔ ہم 13 سال سے شادی کرکے خوشی خوشی رہ رہے ہیں۔ دوبچے ہیں لیکن اب ہماری زندگی مشکل ہو گئی ہے۔
مساجدپر بری نظر
    مغربی دہلی سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرویش صاحب سنگھ ورما نے گزشتہ دنوں دہلی کے لیفٹنٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کرایک فہرست سونپی جس میں مبینہ طور پر مساجدومدارس اورمزارات وقبرستانوں کی تفصیل ہے جو غیرقانونی ہیں۔ اس فہرست میں انھوں نے 54مساجد،2 مزارات اورپانچ قبرستانوں کی تفصیل دی ہے جو مغربی دہلی میں ان کے حلقہ انتخاب میں واقع ہیں۔ پرویش صاحب سنگھ ورما نے دعویٰ کیاکہ یہ مساجد اورقبرستان سرکاری زمین پرتعمیرکیے گئے ہیں۔اس سے پہلے بھی انھوں نے ایل جی سے ملاقات کی تھی اور شکایت کی تھی کہ ان تعمیرات کے سبب ٹرافک نظام پر اثر پڑ رہا ہے۔ اب لسٹ دے کر انھوں نے دہلی میں ’مسجدوں کے بڑھنے‘ پر سوال اٹھاتے ہوئے لیفٹننٹ گورنر انل بیجل سے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔دوسری طرف دہلی اقلیتی کمیشن نے ایک کمیٹی بناکر معاملے کی جانچ کرائی تو پتہ چلا کہ ورما کے تمام الزامات غلط ہیں۔ اس کے بعد کمیٹی نے سفارش کی کہ ممبرپارلیمنٹ چونکہ افواہیں پھیلاکر شہر کا ماحول بگاڑ رہے ہیں لہٰذا ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
’جے شری رام‘کی زبردستی
    پورے ملک سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ مسلمانوں کو پکڑ کر ان سے زبردستی جے شری رام کہلایا جارہاہے۔ ایک ایساہی واقعہ انّاؤ(اترپردیش)میں پیش آیا ہے۔ جہاں میڈیا کے مطابق ایک مدرسے کے بچوں کو ”جے شری رام“ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔جب بچوں نے نعرے لگانے سے انکار کیا تو ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔بچوں کے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔اور ان کی سائیکلیں توڑ دی گئیں۔یہاں کی جامع مسجد کے امام مولانا نعیم مصباحی کا الزام ہے کہ اس معاملے میں ہندو شدت پسند تنظیم بجرنگ دل کا ہاتھ ہے۔ میڈیا کے مطابق پولس نے بھی ملزمین کی پہچان فیس بک اکاونٹ کے ذریعے کی ہے جن پر ملزموں نے خودکو بجرنگ دل کا رکن بتایا ہے۔ذرائع کے مطابق 12۔13 سال کے مدرسے کے کچھ بچے گراونڈ میں کھیل رہے تھے۔ تبھی وہاں آئے بجرنگ دل کے کارکنوں نے بچوں سے ”جے شری رام“ کے نعرے لگانے کو کہا۔ انکار کرنے پر بچوں کو کرکٹ بیٹ سے پیٹا گیا۔یہ خبر ساری دنیا کے اخبارات اور ویب سائٹس نے شائع کی ہے۔ حالانکہ پولس کا دعویٰ ہے کہ جے شری رام کہلانے کی بات غلط ہے۔ یہ محض بچوں کے کھیل کے درمیان جھگڑے کا ایک معاملہ ہے۔  
اولاڈرائیور کی پٹائی
     اِسی دوران ممبئی سے متصل تھانے سے خبر ہے کہ شرپسندوں نے اولا کے ایک مسلم ڈرائیور کی بری طرح پٹائی کر کے اس سے زبردستی ”جے شری رام“ کہلوایا۔ اولا ڈرائیور فیصل عثمان خان کا کہنا ہے کہ مَیں اپنی گاڑی لے کر جا رہا تھا کہ تین شرابیوں نے اِسکوٹی سے میری گاڑی کو ٹکر ماری اور مراٹھی میں گالی دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے باپ کا روڈ ہے؟ کچھ کہا سنی کے بعد لات گھونسوں سے زدوکوب کرنے کے علاوہ راڈ سے بھی میری پٹائی کی۔ جسمانی چوٹیں لگنے پر مَیں نے اْن سے کہا کہ اللہ کے واسطے مجھے مت مارو ورنہ مَیں مَر جاؤں گا تو ایک نے کہا کہ یہ تو مسلمان ہے۔اْس کے بعد انھوں نے دوبارہ  پٹائی کی اور جے شری رام کہنے پر مجبور کیا۔اس سے پہلے خبر آچکی ہے کہ جھارکھنڈ میں تبریز انصاری نامی ایک مسلم نوجوان کو ایک درخت سے باندھ کر اس کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور اسے ’جے شری رام‘ کہنے پر مجبور کیا گیا۔اس نے مجبوری میں ایسا کیا بھی مگر پھر بھی اس کی جان نہیں بچ پائی۔ اسی طرح مغربی بنگال میں حافظ محمدشاہ رخ  ہلدار کو مسلمان ہونے کے جرم میں چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا۔اسے بھی ”جے شری رام“ کہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
کیونکہ میں مسلمان ہوں 
    ملک کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمان کس انداز میں سوچتے ہیں؟ اس کی ایک مثال ایک اعلی افسر نیازاحمد خان ہیں جو کہ مدھیہ پردیش بھوپال میں محکمہ پی ایچ ای (پبلک ہیلتھ انجینئرنگ) میں ڈپٹی سکریٹری ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر شکایت کی کہ دوران ملازمت انھیں مسلمان ہونے کی وجہ سے پریشان کیا گیا۔انہوں نے ایک سینئر افسر کی طرف سے کی گئی بدسلوکی کے واقعہ کا بھی ٹوئٹر پر ذکر کیا۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ان کے نام کے ساتھ لفظ ’خان‘ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی سروس کے دوران بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے اور”خان“ سر نیم ان کا آسیب کی طرح تعاقب کر رہا ہے۔حالات سے پریشان نیاز احمد خان نے مسلمانوں کا نام اور شناخت بدلنے کی بھی وکالت کی۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

18اگست2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا