English   /   Kannada   /   Nawayathi

نریندر مودی کا کشمیریوں کیلئے وعدہئ فردا  ’کیا ہوا تیرا وعدہ، وہ قسم، وہ ارادہ‘

share with us


 عبدالعزیز


    ہندستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اکثر کہا کرتے تھے کہ’حکمرانی الفاظ کے ذریعے ہوا کرتی ہے‘ (Man is governed by words)۔ سابق وزیر اعظم سیاست داں کے علاوہ مدبر اور مصنف بھی تھے۔ ان کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اچھے الفاظ اور اطوار و اخلاق کے ذریعے حکمرانی کرتا ہے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نریندر مودی وعدے اور وہ بھی جھوٹے وعدے اور جملہ بازی کے ذریعہ حکومت کررہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کی حکمرانی کے دور میں صرف وعدے پر وعدے کرتے رہے مگر ایک وعدہ بھی پورا نہیں کرسکے۔ ان کے وعدوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ سارے وعدوں کو گنایا نہیں جاسکتا۔ اپنی پہلی حکومت میں ’نوٹ بندی‘ کے بارے میں کتنے وعدے کئے تھے وہ سب کا سب وعدہئ فردا ثابت ہوئے۔ پہلا وعدہ تھا کہ 30دن میں ملک کے حالات معمول پر آجائیں گے۔ دوسرا وعدہ تھا کہ تین مہینے میں اگر حالات معمول پر نہیں آئیں گے تو عوام جس چوراہے پر چاہیں گے ان کی خبر لے سکتے ہیں۔ ان وعدوں سے پہلے جس روز نوٹ بندی کی گئی تھی ملک کے لوگوں سے کئی وعدے کئے۔ ایک وعدہ یہ تھا کہ نوٹ بندی سے کالا دھن واپس آجائے گا، ہر ایک شہری کے کھاتے میں 15 لاکھ روپئے چلے جائیں گے۔ دوسرا وعدہ تھا کہ نوٹ بندی سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ نہ دہشت گردی ختم ہوئی اور نہ کالا دھن واپس آیا اور نہ ہی کسی کے کھاتے میں پندرہ لاکھ تو بڑی بات ہے پندرہ روپئے بھی نہیں آئے۔ وعدوں کی اس بھرمار سے عوام بالکل واقف تھے لیکن پلوامہ کے سانحے اور بالا کوٹ کے ایئر اسٹرائیک نے سب کچھ بھلا دیا اور مسٹر نریندر مودی دوبارہ چن کر بھاری اکثریت سے وزیر اعظم ہوگئے۔
    لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ ”کیا ہوا تیرا وعدہ، وہ قسم، وہ ارادہ“۔ مہنگائی بڑھی، بے روزگاری میں اس قدر اضافہ ہوا کہ چالیس بعد کل کارخانے بھی بند ہوگئے۔ خیر یہ تو باتیں ہیں گزشتہ پانچ سال کے اندر کی۔ لیکن اب جو وعدوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور افسوسناک ہے۔ اگر چہ ان وعدوں کا ملک کی ایک خاص ریاست جموں و کشمیر سے تعلق ہے، لیکن دیر یا سویر ملک بھر میں اس کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے کہ کشمیر کے خصوصی اختیارات کو ختم کردینے سے کتنے دوررس نتائج ہوں گے۔ اس وقت جو کشمیریوں کو ان کے گھروں یا جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے اور ان کے گھروں اور دروازوں کے باہر 9 لاکھ فوجیوں اور غیر معمولی تعداد میں بندوق بردار پولس تعینات کر دی گئی ہے۔ فوجی طاقت کے ذریعے کسی خطے پر یا ملک پر زیادہ دنوں تک حکومت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے نریندر مودی کو جو لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ کشمیر کو قید خانے میں تبدیل کرنے کے بجائے جمہوری اور آزادانہ ماحول جلد سے جلد میں بدل دیا جائے۔ وہ صحیح مشورہ دے رہے ہیں۔ دیر یا سویر مودی جی کو اس مشورے پر عمل کرنا ہوگا۔ 
    آج یو این سکریٹری کونسل نے کشمیر کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ کیا ہوگا کیا نہیں کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ 65 سال بعد عالمی پیمانے پر زیر بحث آگیا ہے۔ دنیا کی 69 انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم ہند کو کشمیر میں انسانی حقوق شکنی پر متنبہ اور خبردار کیا ہے کہ انسانی حقوق جلد سے جلد بحال کر دیئے جائیں۔ لندن کے ہاورڈ یونیورسٹی کے 160 سابق طلبہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر کشمیر کے حالات کو معمول پر لانے پر زور دیا ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک بھی ہندستان کے خلاف اس معاملے میں بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے میں سرگرم عمل ہے۔ کئی ملکوں نے بھی کشمیر کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگر ہماری حکومت اور ہمارے وزیر اعظم صاحب پر ان سب کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے تو آخر کب تک اثر نہیں ہوگا۔ کیونکہ اب دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوگئی ہے، کسی بات کو چھپانا آسان نہیں ہے۔ کشمیر میں جو مظاہرے اکا دکا ہورہے ہیں وہ بھی دنیا کے معروف چینلوں میں دکھائے جارہے ہیں۔
     ایک خاص بات کی طرف جس کیلئے یہ مضمون لکھا جارہا ہے وزیر اعظم کی توجہ دلانا ضروری ہے۔ وہ خاص بات یہ ہے کہ 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی۔ 8 اگست کو مسٹر نریندر مودی نے ملک و قوم کو خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں کہا کہ ”عید کا تہوار قریب آرہا ہے، کشمیری بھائی بہنوں کو عید کی ’شبھ کامنائیں‘ (نیک خواہشات) عید الاضحی کا تہوار کشمیر کے لوگ اچھی طرح سے منائیں گے اور اس میں کوئی خلل نہیں ڈالا جائے گا۔ اور جو کشمیری اپنے گھروں سے باہر ہیں ان کو ان کے گھروں تک پہنچانے کا بندوبست کیا جارہا ہے“۔ ”وزیر اعظم صاحب! ذرا یہ بتائیے کہ کیا کشمیریوں نے عید کا تہوار منایا؟ کیا کشمیری جو باہر تھے اپنے گھروں تک پہنچے؟ دنیا بھر کے نیوز چینلوں اور خاص طور پر دہلی کی سیول سوسائٹی کی ٹیم جو 5 اگست سے 13 اگست تک کشمیر کے دورے کے بعد واپس آکر رپورٹ دی ہے وہ تو انتہائی بھیانک اور اندوہناک ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے اور ننھے منے بچے بھی عید منانے سے محروم رہے۔ ماؤں نے ان کے رونے پر نئے کپڑے ضرور پہنا دیئے مگر وہ اپنے دروازے سے باہر نہیں نکل سکے۔ خوف و دہشت کا ماحول اس قدر طاری ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ پورے کشمیر کو قید خانے سے بھی بدتر بنا دیا گیا ہے۔ ہر 9  آدمی پر ایک فوجی کو مسلط کردیا گیا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ لوگ آ جا نہیں سکتے۔ پورے کشمیر میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا سماں ہے“۔ رپورٹ میں اس سے بہت زیادہ باتیں کہی گئی ہیں جو حکومت کے کان میں پڑچکی ہوں گی۔
     اگر چہ دہلی کے پریس کلب نے اپنے ہال میں سیول سوسائٹی کی رپورٹ کو پروجیکٹر کے ذریعے دکھانے کی اجازت نہیں دی، لیکن ’یو ٹیوب‘ میں ہر کوئی اس رپورٹ کو دیکھ سکتا اور سن سکتا ہے۔ جنتر منتر میں بھی دو روز کشمیر کے خصوصی اختیارات ہٹانے کے خلاف مظاہرے ہوئے15 اگست اور عیدالاضحی  کے دن۔ یوم آزادی کے موقع پر مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے سی پی ایم کی لیڈر محترمہ برندا کرات نے کہا کہ کشمیر میں کوئی نہیں بول سکتا ہے لیکن دہلی میں تو بول سکتا ہے۔ انھوں نے کشمیر کے حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ سوچنے کی بات ہے کہ 15 اگست کے ہی دن وزیر اعظم نے لال قلعہ سے قوم کو خطاب کیا۔ کشمیر کے خصوصی اختیارات کو ختم کرنے پر اپنی پیٹھ تھپتھپائی اور بتایا کہ 70 دن بھی نہیں ہوا لیکن انھوں نے دو بڑے کام انجام دیئے۔ ایک تین طلاق پر قانون بنانے اور 370 اور 35A دفعات کو ہٹانے۔ ایک طرف مودی جی فرما رہے ہیں کہ مسلم عورتوں کو حقوق دلانے اور راحت دلانے کا کام کیا اور دوسری طرف کشمیر کی مسلمان عورتوں اور ان کے بچوں پر قدغن کچھ اس طرح لگایا ہے کہ ان کو سارے حقوق سے محروم کردیا ہے۔ یہ مسٹر مودی کی تضاد بیانی نہیں تو اور کیا ہے۔ آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ مودی جی! ’کیا ہوا تیرا وعدہ، وہ قسم، وہ ارادہ‘؟ یہ حقیقت ہے کہ کشمیریوں کے بغیر کشمیر کا کوئی تصور ناممکن ہے۔ لہٰذا مودی جی اور ان کے دست راست امیت شاہ اگر انسانی دل و دماغ کا استعمال کریں گے تو اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

17اگست2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا