English   /   Kannada   /   Nawayathi

 جنگ آزادی میں تضادات کی لہریں 

share with us


عارف عزیز(بھوپال)

آزادی کی ۲۷ویں سالگرہ بیرونی اقتدار و استبداد کے خلاف اُس سرفروشانہ جدوجہد کی یاد دلاتی ہے جس کی تاریخ ہمارے بزرگوں کے خون و پسینہ سے عبارت ہے۔ انگریزوں نے اگرچہ اِس کو ”غدر“ اور ”ناکام بغاوت“ سے تعبیر کرکے اِس کی اہمیت کم کردینا چاہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدوجہد آزادی کی یہی مرحلے ہندوستان کی آزادی کی بنیاد بنے اور اِس کے دوران جن ہزاروں محبانِ وطن اور جانبازوں نے بے دریغ اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا وہی استخلاصِ وطن کا عنوانِ جلی ثابت ہوئے۔ 
آج آزادی کے ۷۶ برس بعد ملک کا جو ماحول ہمیں دکھائی دیتا ہے اور اُس میں تضادات کی جو لہریں دوڑتی نظر آتی ہیں اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جواہرلال نہرو کے الفاظ میں ”یہاں دو مختلف دھارے ہر عہد میں متوازی طور پر بہتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ علم و فن، تہذیب و تمدن، صناعی و مصوری اور شعروموسیقی ہی نہیں سیاست و حریت میں بھی اس تضاد اور اختلاف کی واضح جھلکیاں نظر آتی ہیں“مثلاً قدیم ہندوستان میں جہاں اکبرؔ پوری طاقت سے اسلامی ذہن اور اُس کی تعلیمات کو مسخ کردیتا ہے وہیں اُس کا ہندو سپہ سالار مان سنگھ مسلم سلطنت کے قیام کے لئے اپنے ہم مذہبوں سے دست وگریباں ہے۔ جے چند اپنے دوسرے ہندو راجہ پرتھوی راج کی دشمنی پر کمر بستہ ہے تو میر جعفر اور میر صادق سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان جیسے حریت پسندوں کے خلاف انگریزوں سے ہاتھ ملا لیتے ہیں یہ انسانیت کا المیہ یا انسانوں کی پستی نہیں بلکہ ہندوستانی تاریخ کا وہ مزاج ہے جس سے کوئی زمانہ محفوظ نہیں۔ یہاں تک کہ ماضی قریب میں انقلابی ذہن کے اعتبار سے یکساں صلاحیت رکھنے والے رہنما ایک دوسرے سے متضادفکر کے حامل نظر آتے ہیں۔
ایک طرف مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر مختار انصاری ہیں جو حب الوطنی، قوم پرستی اور قومی نقطہ نظر کے نڈر علم بردار ہیں تو دوسری جانب ویرساورکر، ڈاکٹر مونچے، محمد علی جناح، لیاقت علی خاں اور گروگوالکر ہیں جو اپنی پوری انقلابی روح اور ذہنیت کے باوجود زندگی کے بڑے حصّہ میں علاحدگی پسندی اور دو قومی نظریے کے لئے سرگرم عمل رہے۔
ہندوستان کی تاریخ کے قدرتی بہاؤ کے دوسری تمام تاریخوں سے مختلف ہونے کے ثبوت میں جمہوریت کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے جس کی ابتداء سارے عالم میں انقلابِ فرانس کے بعد شمار کی جاتی ہے لیکن یہاں انقلابِ فرانس کا زمانہ انتہائی تاریک اور استحصال سے پُر تھا کیونکہ جس وقت انقلاب فرانس کا پروردہ نپولین ساری دنیا کو آزادی اور نئی روشنی سے متعارف کرارہا تھا ٹھیک اُسی وقت ہندوستان میں نوآبادیاتی نظام کے محافظ سرآرتھر ویلزلی کی گولی بطلِ حریت سلطان ٹیپو کا سینہ لہولہان کررہی تھی یا جس وقت امریکہ میں واشنگٹن کی قیادت میں انسانی آزادی اور مساوات کا پرچم بلند ہورہا تھا، اُس وقت ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نوآبادیاتی نظام برگ وبار لارہا تھا اور امریکہ سے روسیاہ ہوکر انگلستان لوٹنے والے گورنرجنرل لارڈ کارنواس کو ہندوستان کا گورنر بناکر بھیجنے میں قطعی جھجک محسوس نہیں کی جارہی تھی۔
ہندوستان کی تاریخ کے غیرمتوازن سفر کا ثبوت جگہ جگہ ۷۵۸۱ء کی اس ولولہ انگیز اور ملک گیر مہم میں بھی ملتا ہے جو اگر کامیابی سے ہمکنار ہوجاتی تو یہاں کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔ اس تحریک کے عالمِ شباب میں دہلی جیسے مرکز میں ہندو مسلم فساد ہوتے اور بازار لوٹ لئے جاتے۔ سکھ فوجی آٹھ دن تک شہر کے سقوط کے بعد وہاں لوٹ مار مچاتے اور مسلم آبادی کو ہر طرح کے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔ دوسری طرف ہزاروں ہندو اُس نجات دہندہ فوج کے ہراول دستے میں دادِ شجاعت دیتے دکھائی دیتے ہیں جو صرف مغلیہ سلطنت کو قائم رکھنے کے جذبہ سے پورے شمالی ہند کے ہرہر قریہ میں برسرِ پیکار تھی۔
اِسی طرح تاریخ کے صفحات پر یہ حقیقت ثبت ہے کہ مہاراجہ جے پور ۷۵۸۱ء کے مجاہدوں کو صرف اس بناء پر مدد دینے سے انکار کردیتے ہیں کہ ان کی کامیابی سے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کو استحکام ملے گا۔ ایک طرف تاریخ میں اودھ کے تعلقہ داروں میں سے ایک غیر مسلم تعلقہ دار راجہ کنور سنگھ کا وہ کارنامہ ہے جو فرض شناسی اور وقار کے خون سے لالہ زار ہوکر ہمیشہ کے لئے نقش ہوچکا ہے۔ انگریزی فوج سے مقابلہ آرائی کرتے ہوئے جب یہ بہادر فتح و کامرانی سے مایوس ہوگیا تو اُس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ انگریزوں کے آگے ہتھیار ڈال دے لیکن انگریز کمانڈر نے جب اُس سے خود اُس کی تلوار طلب کی تو اُس کے برملا الفاظ تھے کہ ”میں کیسے ہتھیار ڈال سکتا ہوں یہ لوگ میری ذمہ داری اور ملکیت میں تھے، میں نے اُن کی جانیں ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اِس لئے ہتھیار ڈالنے کا حکم دے کر اُن کی جانیں بچالیں لیکن مجھ پر میرا حکم نہیں چلتا،میں برجیس قدر کی ملکیت ہوں، وہ مجھے ہتھیار ڈالنے کا حکم دینے یہاں نہیں، لہٰذا میں آخری لمحہ تک لڑتے رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کرسکتا“ اُس نے تنہا انگریز فوج پر حملہ کردیا اور لڑتے لڑتے جان دے کر قربانی اور بہادری کی وہ تاریخ رقم کرگیا جس کا ایک ایک لفظ انگاروں کی طرح آج بھی دہک رہا ہے۔
تحریکِ آزادی کے یہ تضادات کسی ایک دور یا زمانے تک محدود نہیں، بعد کی جدوجہد آزادی کے دو مرکزی کرداروں کے مطالعہ سے اِس تضاد کی ایک اور تہہ سے پردہ اُس وقت اُٹھتا ہے جب ۱۳۹۱ء کے کراچی میں منعقدہ کانگریسی اجلاس سے عین ایک دن قبل شہید بھگت سنگھ کو پھانسی دے دی جاتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں نہ صرف حکومت بلکہ گاندھی جی کے خلاف بھی ملک گیر مظاہرے ہوتے ہیں کیونکہ اُن پر یہ الزام عائد لگایا جارہا تھا کہ اُنہوں نے بھگت سنگھ کی جان بچانے کے بجائے دوہرا کردار ادا کرتے ہوئے انگریز حکومت سے کئے گئے اپنے ”دہلی پیکٹ“ کا تحفظ کرنا زیادہ ضروری سمجھا اور اِس طرح شاید اُن کی نظر میں ایک انقلابی کی جان سے زائد قیمتی ”دہلی معاہدہ“ ہوگیا تھا۔ 
اس تجربہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سرزمینِ ہند پر حریت پسندوں اور بزدلوں، مصلحت اندیشوں اور بہادروں، وطن پروروں اور وطن فروشوں نیز فرقہ پرستوں اور رواداروں کی متضاد صفیں آراستہ تھیں۔ ایک طرف برجیس قدر اور حضرت محل کی قیادت میں راجہ کنور سنگھ جاں نثاری اور وفاداری کا باب کھولتا ہے تو دوسری طرف اُس راجہ کی مشتبہ تصویر پس منظر سے ابھری نظر آتی ہے جس نے بغاوت کے بعد مولانا احمداللہ کو دھوکہ سے قتل کرکے اُن کا سر کمپنی بہادر کے کمانڈر کو بھجوادیا تھا۔ ایک طرف عظیم محب وطن عظیم اللہ خاں ہیں جو اپنے آقا نانا صاحب کے لئے سر ہتھیلی پر رکھے راجپوتانہ اور بندیل کھنڈ کی سرزمین کو زیروزبر کئے ہوئے ہیں تو دوسری جانب نوابانِ رام پور اور حیدرآباد ہیں جو استخلاص کے لئے کفن بردوش قیادت میں پھوٹ ڈلوانے اور اختلاف کو ہوا دینے والی سازشوں کا خمیر اُٹھائے ہوئے ہیں۔ پھر اس ہولناک جنگ کا وہ ردّعمل ہے جو آبادیوں کو خس وخاشاک کے ڈھیروں اور انسانی بستیوں کو لاشوں کے انباروں میں تبدیل کئے دے رہا ہے۔
ایک مشتِ خاک اور بے حقیقت تنکے کی بھی کوئی قیمت ہے لیکن انسانی سر کی اتنی بھی قیمت نہیں تھی، دس، دس، پچاس،پچاس اور بعض اوقات ہزار ہزار انسانی نفوس ایک ہی وقت میں تختہ دار پر چڑھائے جارہے ہیں۔ شریف اور پردہ نشین عورتوں پر بھنگیوں نے چڑھائی کرکے ان کے کانوں سے بالیاں تک نوچ لی ہیں۔ پورا شمالی ہند میدانِ حشر کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ مرزا غالبؔ کے الفاظ میں ”چوک مقتل اور گھر زنداں کے نمونے بن گئے ہیں“۔ مختلف طبقات شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ معاشرہ منتشر ہورہا ہے۔ شرافت کے معیار تبدیل ہورہے ہیں اور تاریخ کا دھارا ایک غضب ناک آواز کے ساتھ شمال مشرقی ہندوستان کے میدانوں میں آبشار کی مانند جھاگ اُگل رہا ہے، قدیم تعلقہ دار سولیوں کی بلندیوں پر سوکھ رہے ہیں، اُن کی جگہ نئے تعلقہ دار انگریزوں کی عطاکی ہوئی مسندیں بچھارہے ہیں۔ پورا ملک ایک انقلاب سے دوچار ہے، جاگیردار تبدیل ہورہے ہیں، زمیندار بدل رہے ہیں۔ رعایا کی نوعیت میں تغیر ہورہا ہے، ہر طرف خوف و دہشت کا راج ہے، اِس سیلابِ بلاخیز نے پنجاب سے لے کر بنگال تک کی سرزمین کو گھیر لیا ہے اور عافیت پناہ کی تلاش میں منہ چھپائے پھررہی ہے۔
۷۵۸۱ء کی شکست دو فوجی فریقوں میں سے ایک کمزور فریق کی شکست نہیں بلکہ اُس پورے نظام کی شکست تھی جو کم و بیش تبدیلیوں کے ساتھ ڈھائی ہزار سال سے ہندوستان میں قائم تھا اور یہ اُسی طرح ناکامی اور لاحاصلی پر ختم ہوا جس طرح اِس سے ۶۲ برس پہلے سیداحمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک ختم ہوئی تھی لیکن ان دونوں تحریکوں کے نتائج میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ۱۳۸۱ء میں جو سلسلہ شروع ہوا تھا اُس کی ناکامی ایک عسکری مہم کی ناکامی تھی، اُس کے نامور اور عظیم رہنما اِس میں شہید ہوکر تحریک کو قیادت سے محروم کرگئے لیکن وہ معاشرہ اپنی جگہ قائم تھا جس نے اس مہم کے لئے مواد اور قیادت فراہم کئے تھے۔ وہ نظام اپنے کھوکھلے پن یا کمزوری کے باوجود باعتبار ڈھانچے کے سلامت تھا جس کی پس پشت بہادری و کمزوری، شکست و ریخت، کامیابی و ناکامی کی دو صدیوں پرانی وہ زنجیر تھی جو اس نظام کو تھامے ہوئے تھی۔
یہ تحریک اُن جانبازوں کی قوتِ بازو اور جدوجہد کا نتیجہ تھی جو انگریزوں کی حکومت کو مذہب اور اسلامی شعائر کے لئے سنگین خطرہ سمجھتے تھے اور اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کو دینی یا مذہبی فریضہ خیال کرتے تھے یعنی بزرگانِ دین، علماء کرام اور اُن کے معتقدین یا اُن میں وہ لوگ شریک تھے جنہیں تحریک کی کامیابی سے اپنا مطمع نظر پورا ہوتا دکھائی دیتا تھا جن میں بہادرشاہ ظفرؔ، مہارانی لکشمی بائی، برجیس قدر، نانا صاحب اور تاتیا ٹوپے شامل تھے، یا وہ تھے جو انگریزوں کی پالیسیوں اور ظلم کا شکار ہوچکے تھے اور انہیں اِس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ بزدلوں کی طرح تباہ و برباد ہوجائیں یا اپنے بساط بھر لڑتے لڑتے کام آجائیں، اِن میں بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی اس کے برعکس ہندوؤں کی اصل اور طاقتور ریاستیں اِس جنگِ آزادی سے نہ صرف الگ تھلگ رہیں بلکہ اُن کی فوجی طاقت اِس تحریک کو کچلنے میں انگریزوں کے شانہ بشانہ مصروف رہی۔
۷۵۸۱ء اور اُس کے کچھ بعد تک ہندوستان کی عام سیاسی صورتِ حال یہ تھی کہ لڑنے بھڑنے یا فتح و شکست پانے کا سارا کام ایک مخصوص طبقہ کے سپرد تھا اگرچہ اس جدوجہد میں عام رعایا کی اچھی خاصی تعداد کام آتی رہی لیکن جدوجہد آزادی کی رفتار اور نشیب وفراز سے اسے کوئی خاص مناسبت نہ تھی کیونکہ ہندوستان میں جس طویل عرصہ تک بادشاہت رہی اس کا لازمی اور طبعی خاصہ یہ بھی تھا کہ یہاں کے لوگ بادشاہت اور مطلق العنان حکمرانی میں امتیاز نہ کرسکیں۔ موجودہ ہندوستان کی پریشانی، غیرمتوازن سماج اور پارہ پارہ تہذیب اور سیاسی محاذوں پر افراتفری کا یہی سبب ہے کہ یہاں جمہوریت کے اس نظام کو قدرتی نشوونما اور ارتقاء کے مواقع کم میسر آئے جس کے تحت آزادی کے بعد ملکی کاروبار چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
(ماخوذ: از روزنامہ ”ندیم“ بھوپال ۵۱/  اگست ۲۰۰۲ء جزوی تبدیلی کے ساتھ)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا