English   /   Kannada   /   Nawayathi

کانگریس کے سفینے کو ناخدا کی تلاش!

share with us


ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی


    مودی کی زیر قیادت بی جے پی‘ الیکشن2024ء کی تیاری شروع کرچکی ہے اور کانگریس ابھی تک ا ستعفوں‘ بیان بازی‘ تنقید اور الزام تراشیوں میں مصروف ہے۔ الیکشن 2019ء سے پہلے بھی ایسا ہی ہوا۔ دو الیکشن ہارنے کے باوجود اس سے سبق سیکھا نہیں گیا۔
    راہول گاندھی نے استعفیٰ دلبرداشتہ ہوکر دیا یا بقول ذویا حسن (MINT) بی جے پی کو مخالف نہرو گاندھی پریوار پر حملوں سے روکنے کے لئے حکمت عملی اختیار کی۔ اس سوال کے جواب پر غور تقریباً سیاسی تجزیہ نگار اور پنڈت کررہے ہیں‘ مگر کانگریسی قائدین وقت ضائع کرتے ہوئے بی جے پی کو موقع فراہم کررہے ہیں کہ اس نے ”کانگریس مکت بھارت“ کا جو نعرہ لگایا‘ جو مہم شروع کی تھی‘ اسے حقیقت کا روپ دے سکے۔ کرناٹک کی صورتحال سامنے ہے۔ کانگریس ہائی کمان‘ راہول گاندھی کے بغیر ”بغیر سر کے جسم“ کے مانند دکھائی دے رہی ہے۔ الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی وفاداریوں کی تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اور بہت سارے ایسے تھے جنہیں نتائج کا اندازہ تھا اور وہ پہلے ہی سے بی جے پی سے مبینہ طور پر معاملت کرچکے تھے۔ مغربی بنگال کی مثال ہے جہاں ترنمول کانگریس کے کچھ ارکان اسمبلی اور کئی کارپوریٹرس بی جے پی میں شامل ہوگئے۔
    بی جے پی کی انتخابی منصوبہ بندی‘ حکمت عملی‘ کارکنوں سے ہائی کمان کا راست رابطہ‘ میڈیا کو اپنے حق میں  استعال کرنے کی صلاحیت کا خود کانگریس نے اعتراف تو کیا مگر اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ سینئر قائدین کے یکے بعد دیگر استعفوں کے سلسلہ نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ اس کا حال ناخدا کے بغیر کشتی جیسا ہے جو منجدھار کے قریب پہنچ چکی ہے۔
    راہول گاندھی جب اپنے فیصلہ پر اٹل ہیں‘ تو ان کے متبادل یا جانشین کی تلاش ابھی تک نہیں کی جاسکتی اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی میں راہول کے جانشین کی کوئی جگہ تھی ہی نہیں۔ پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں داخلہ سے امیدیں بندھی تھیں۔ مگر وہ بھی اب موہوم ہوچکی ہیں۔ کیوں کہ راہول نے باقاعدہ اعلان کردیا ہے کہ ان کا جانشین گاندھی خاندان سے نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ پرینکا کے شوہر ووڈورا کو جس طرح سے مختلف معاملات میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور مختلف ایجنسیوں کے چکر لگانے پڑرہے ہیں جس طرح مقدمات کا سامنا ہے‘ اسے ٹالنے کی بھی یہ ایک کوشش ہو‘ کیوں کہ اگر پرینکا سرگرم رہتی ہیں تو رابرٹ وڈورا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
    کانگریس کی اس اندرونی کشاکش‘ خلفشار سے بیزار سینئر ترین قائدین نے اب لب کشائی شروع کردی ہے۔ پہلے کرن سنگھ نے اور اب جناردھن دویدی نے کڑی تنقید کرتے ہوئے راہول گاندھی کے متبادل کے انتخاب کی ضرورت پر زور دیا۔ اب دوسرے گوشوں سے بھی آوازیں اٹھیں گی۔ یوں تو ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ورکنگ پریسیڈنٹ بنانے کی تجویز ہے۔ اس پر عمل ہوتا ہے تو پھر وہی پارٹی کارکنوں میں عمر کا فرق اس کی کارکردگی پر اثرانداز ہوگا۔ اس وقت کانگریس کو نئے خون نئے جوش اور ولولے کی ضرورت ہے۔ سچن پائیلٹ کو واقعی پارٹی کا صدر بنادیا جاتا ہے تو اس سے نوجوان نسل میں دلچسپی تو پیدا ہوگی یہ ا ور بات ہے کہ بعض سینئر قائدین جو‘ اب بھی پارٹی کو اندر سے کھوکھلا کرچکے ہیں‘ مزید نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
    تجزیہ نگار زویا حسن نے لکھا ہے کہ راہول گاندھی نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دے کر بی جے پی کو کمزور کردیا ہے۔ کیوں کہ ابھی تک بی جے پی قیادت کا نگریس کے خاندانی راج پر تنقید کرتی رہی ہے اور مودی نے ”کامدار“ اور ”نامدار“ کی اصطلاح سے کافی حملے کئے ہیں۔ راہول گاندھی یا گاندھی خاندان کے ارکان اگر نہ رہیں تو بی جے پی کو تنقید کا موقع نہیں ملے گا۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی چاہتے ہیں کہ کانگریس گاندھی خاندان کے بغیر بھی اپنے پیروں پر آپ کھڑا ہونا سیکھ لے۔ چوں کہ ہر دور میں گاندھی خاندان غالب رہا‘ اس لئے کسی نے یہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ناگزیر حالات میں راہول کی جگہ کون لے گا۔ بعض سینئر قائدین ضرور ہیں مگر انہیں پارٹی سے ”کتنی ہمدردی“ اور دلچسپی ہے اس کا اندازہ حالیہ انتخابات کے دوران ہوچکا ہے۔
    کانگریس کی مکمل ”اوور ہالنگ“ ناگزیر ہے۔ اس نے اپنے سیکولر کردارکو آہستہ آہستہ زعفرانی رنگ میں رنگ لیا‘ کیوں کہ اسے مستقبل کی فکر ہے‘ ہندوستان کا مستقبل‘ جو آہستہ آہستہ ہندوتوا‘ نظریہ کو اختیار کررہا ہے۔ اسے نئی نسل کے ان ووٹرس کی فکر ہے‘ جن کے ذہنوں کو سنگھ پریوار نے اس قدرزہر آلود کردیا ہے کہ وہ سیکولرزم سے نفرت کرتی ہے۔ اور یہ چاہتی ہے کہ دوسرے ابنائے وطن بھی اس کے رنگ میں ڈھل جائیں۔
    نریندر مودی کی جارحانہ قیادت‘ امیت شاہ کی سیاسی حکمت عملی‘ مستقبل کی منصوبہ بندی نے بی جے پو کو اس قدر مستحکم بنادیا ہے کہ اب یہ کہنے میں جھجھک نہیں ہوتی کہ اگلے الیکشن تک اس کی جڑیں اس قدر گہری ہوجائیں گی کہ اپوزیشن ابھی نہ سنبھلے تو اس کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔
    بی جے پی حکومت نے الیکشن 2024کی تیاریوں کا آغاز بجٹ 2019ء کی پیشکشی کے ساتھ کردیا ہے۔ نرملا سیتارمن نے اپنے بجٹ میں ایک ایسا خواب دکھایا جس کی تعبیر مشکل ضرور ناممکن نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم مودی نے 2024ء تک ہندوستان کی معیشت کو پانچ کھرب ڈالرس تک پہنچادینے کے عزائم کا اظہار کیا۔پربھو چاؤلا نے انڈین ایکسپریس (10/جولائی2019) میں اپنے ایک مضمون میں مودی کے ویژن 2024 پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 2014ء میں ہندوستان کی معیشت 1.85 کھرب ڈالرس تھی‘ 2019ء میں یہ 2.7کھرب ڈالرس تک پہنچ گئی۔ اب 5 کھرب ڈالرس کی معیشت کا عزم یعنی 250فیصد اضافہ کا مطلب ہندوستانی عوام کو یہ دکھاناہے کہ کانگریس نے 60سال میں جو کام نہیں کیا تھا‘ وہ بی جے پی حکومت اگلے پانچ برس میں کرے گی۔ اس کے علاوہ معیشت کے اعتبار سے ہندوستان 1980ء میں 13ویں مقام پر تھا اب اس بات کا یقین دلایا جارہا ہے کہ بہت جلد وہ پانچویں مقام تک پہنچ جائے گا۔ مسٹر مودی نے پانچ کھرب ڈالرس معیشت کے نشانے کو چھونے کے لئے پارٹی حکومت کے تمام محکموں کو بھی ذمہ داری قبول کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس ہدف کی تکمیل کے لئے پورے ہندوستان کی تعمیر نو کی ضرورت ہوگی دیہی ہندوستان میں ایک لاکھ 25ہزار کیلو میٹر سڑکوں کی تعمیر‘ شہریوں کو عصری سانچوں میں ڈھالنے، ریلویز، ایرویز اور آبی رہ گزرکی تعمیر‘ 357انفرا پراجکٹس کی تکمیل کی جائے گی۔ ماحولیات پر توجہ دی جائے گی۔ تمام شہروں میں شہریوں کے لئے تازہ اور آلودگی سے پاک آب و ہوا‘ آئل امپورٹ میں خودکفالت پر توجہ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایسے بہت سے پروگرامس اور پراجکٹس ہیں جس کی میڈیا کے ذریعہ منظم انداز میں پیشکشی سے بی جے پی کو تیسری بار اقتدار کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔ بی جے پی اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا خواب دکھارہی ہے اورکانگریس اپنے صدر کی تلاش‘ آپسی رنجشوں میں مصروف ہے۔ اس کا اثر ہر ریاست میں ہورہا ہے۔ اور الیکشن 2019ء میں بھی کانگریس کی ہار کی وجہ اس کی اپنی سینئر قیادت کی حد سے زیادہ خود اعتمادی‘ گھمنڈ، اَنا پرستی اور پارٹی اور ملک کے مقابلے میں ذاتی مفادات کو ترجیح تھی۔ دہلی میں اگر کانگریس کو شکست ہوئی تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہیں؟ یہ دہلی والے بھی جانتے ہیں اور کانگریس والے بھی۔ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا صفایا کرنے والی کانگریس پانچوں ریاستوں میں کیوں ہار گئی؟ اس کا جواب ان ریاستوں کے کانگریس کی قیادت دے سکتی ہے جس نے اپنے اپنے ارکان خاندان میں ٹکٹ بٹوانے اور ان کی کامیابی کے لئے اپنے وسائل اور توانائیوں کو صرف کیا۔
    راہول گاندھی اپنے پارٹی قائدین کی بے حسی کے آگے بے بس نظر آئے۔ اور انہوں نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے جس پر انہیں قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کی قیادت چاہے کسی کے پاس میں رہے لیکن اس پر کنٹرول تو بلاشبہ راہول اورسونیا گا ندھی کے پاس ہی رہے گا‘ یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے۔
    بہرحال اس سے پہلے کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے کانگریس کو وقت ضائع کئے بغیر قطعی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کرناٹک ہاتھ سے نکل جائے تو دوسری ریاستیں بھی ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ اور پھر کانگریس مکت بھارت کا نعرہ حقیقت بن جائے گا۔ ویسے اب بھی تقریباً یہ کانگریس مکت بھارت ہوچکا ہے۔(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا