English   /   Kannada   /   Nawayathi

بی جے پی کو کرناٹک سے لینا بھی ہے اور دینا بھی

share with us


حفیظ نعمانی

جنوبی ہند کی اہم ریاست کرناٹک کی حکومت کی عمر 13  مہینے ہے وہاں الیکشن ہوئے تو بی جے پی کو یقین تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی حکومت بنا لے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی جی نے جیسی محنت کی اور سخت موسم میں جتنا پسینہ بہایا اس کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے انتخابی مہم کی سرپرستی کی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ انہوں نے پورا الیکشن خود لڑایا۔ پروردگار ہمیں معاف کرے اگر ہم غلط بیانی کریں اور انہیں بھی معاف کرے جنہوں نے اتنا جھوٹ بولا کہ ہر سچ شرمندہ ہوگیا۔ اور ہم اسے تو انتہا کہیں گے کہ جس ٹیپو سلطان پر پورے ملک کو فخر ہے اور جن کے سنہرے قول کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے عظیم ہوتی ہے ان کے بارے میں بھی کانگریس کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا کہ وہ تو سلطانوں کی گلپوشی کرتی ہے۔
الیکشن کا جب نتیجہ آیا تو کانگریس کو صرف 80  سیٹیں ملیں اور بی جے پی کی بھی ضرورت سے آٹھ سیٹیں کم تھیں تیسری پارٹی جنتا دل ایس کو 38  سیٹیں مل گئیں۔ کانگریس نے بی جے پی کو روکنے کے لئے جنتا دل کو پیشکش کی کہ آپ ہماری حمایت سے حکومت بنا لیجئے اور انہوں نے گورنر کی خدمت میں حکومت سازی کا دعویٰ پیش کردیا۔
ہمیں 13  مہینے کی تاریخ نہیں سنانا ہے بلکہ یہ دکھانا ہے کہ وہ بی جے پی جو پارلیمنٹ میں اپنے وزیر دفاع سے یہ کہلا رہی ہے کہ ہماری پارٹی کا کرناٹک کی توڑ پھوڑ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے وہی بی جے پی اپنے اقتدار کے غرور میں اپنی کم سیٹوں کے باوجود رکاوٹ بنی اور گورنر کو حکم دیا کہ وہ واضح اکثریت والی پارٹیوں کو نظر انداز کرکے کم سیٹوں والی پارٹی کے دعویدار کو وزیراعلیٰ کا حلف دلادے اور اس مجبور اور تابعدار گورنر نے زہر کا یہ پیالہ پی لیا اور بی جے پی کی آٹھ سیٹوں کی کمی کے باوجود حلف دلا دیا اور پندرہ دن کا وقت دیا کہ اپنی اکثریت ثابت کردے۔ کیا شری راج ناتھ سنگھ کے اندر ہمت ہے کہ وہ اس کی تردید کرسکیں اور اس سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ اس غیردستوری حرکت میں گورنر کی کمر پر ہاتھ رکھنے کے لئے اس وزیر کی ڈیوٹی لگائی تھی جو فروغ انسانی وسائل جیسے عظیم محکمہ کا وزیر تھا۔ وہ تو سلام کرنا پڑے گا سپریم کورٹ کو کہ اس نے گورنر کو حکم دیا کہ پندرہ دن کیوں؟ اکثریت ہے تو دو دن میں ثابت کریں اور بی جے پی کے وزیراعلیٰ نے 48  گھنٹے کے بعد ہی روتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ اس پورے ایک ہفتہ میں جو کچھ ہوا اس کے ہر گھنٹہ نے ثابت کردیا کہ کرناٹک کے اس معاملہ سے صرف بی جے پی نہیں بلکہ وزیراعظم کا لینا بھی تھا اور دینا بھی۔
یہ وزیراعظم کی فطرت ہے کہ وہ جہاں زخم کھا جاتے ہیں پھر اسے اس وقت تک معاف نہیں کرتے جیسے بہار میں لالو پرساد یادو کے ہاتھوں انتہائی گہرے زخمی کھانے کا ہی یہ جواب تھا کہ لالو جی جیل میں ہیں اور نتیش کمار بغل میں۔ اور کرناٹک کا وہ زخم کہ انہوں نے اپنے آدمی کو وزیراعلیٰ بنایا اور راہل نے عدالت کے بل پر اس کے حلق سے حکومت نکال لی اور دشمن کی حکومت بن گئی۔
کئی دن ہوگئے ہیں کہ کرناٹک کی حکومت گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ کی طرح اوپر نیچے ہورہی ہے کانگریس اور جنتا دل کے 13  ممبر ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں دامادوں کی طرح عیش کررہے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی حکومت کا یہ کہنا کہ وہ ممبر اپنی مرضی سے گئے ہیں تو سب جانتے ہیں کہ برسوں سے یہ کھیل ہورہا ہے کہ جب اپنے ممبروں کی خرید فروخت کا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو جس پارٹی کو توڑنا ہو یا بچانا ہو وہ ان کو شاہانہ طریقہ سے داماد بناکر کہیں دور لے جاکر رکھتی ہے۔ اور آنے والے ممبر بھی دل کی ہر وہ مراد جو کبھی پوری نہ کرسکے تھے اپنے میزبان سے کرالیتے ہیں۔ اس لئے آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی 25  ممبروں کو لے کر بھاگا ہو اور راستے میں سے پانچ ممبر کود کر بھاگ گئے ہوں۔ اس کی وجہ ان کو معلوم ہے جو لے جائے جارہے ہیں کہ ان کی فرمائشیں پوری کرنے کیلئے ہر ممبر پر کئی کئی لاکھ روپئے خرچ کئے جائیں گے راج ناتھ سنگھ صاحب کو یاد ہوگا کہ کہاں کہاں سے کب کب کون ممبروں کو لے کر بھاگا ہے اور یہ تو گجرات میں دو سال پہلے ہوا تھا کہ احمد پٹیل کی راجیہ سبھا کی رکنیت کا الیکشن خطرہ میں پڑگیا تھا تو وہ کانگریس کے ممبروں کو لے کر کرناٹک آگئے تھے اور انہوں نے سب کو ایک وزیر کا مہمان بنا دیا تھا جس نے ان کی ہر فرمائش پوری کردی اور پولنگ کے وقت آکر ووٹ دے دیئے جس سے احمد پٹیل راجیہ سبھا کے رکن ہوگئے۔
کرناٹک کے پورے مسئلہ میں اب نئی بات یہ ہے کہ بی جے پی کا پیٹ حلق تک بھر گیا ہے۔ اب یہ اچھا نہیں لگتا کہ اقتدار کی اتنی ریل پیل کے بعد بھی قوم کا کروڑوں روپیہ اس پر صرف کیا جائے کہ 15  ممبروں کی عیاشی کی ہوس پوری کی جائے اور پھر ان کو اپنا بناکر اپنی حکومت بنالی جائے۔ جبکہ آج پوزیشن یہ ہے کہ کرناٹک میں بھی لوک سبھا کی ایک سیٹ کانگریس کو ملی ہے اور جو پانچ برس سے کانگریس پارٹی کے لیڈر تھے وہ بھی ہار گئے ہیں۔ یا تو کہیں کہ ملک کی ہر ریاست میں ہماراپرچم لہرائے گا تب چین ملے گا۔ یا جتنا مل چکا اس پر صبر کرلیں اس لئے کہ راہل گاندھی کے بارے میں انہوں نے دیکھ لیا کہ کرناٹک میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ بنگلور آنے کے بجائے امیٹھی میں اپنی کھوئی ہوئی زمین تلاش کرنے جارہے ہیں۔ تو پھر اب کون ہے جس کو پریوار کا شہزادہ کہیں گے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا