English   /   Kannada   /   Nawayathi

 وہ مسلمان،جو خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے

share with us


 آئین ہند،مذہب کے نام پر تفریق کرتا ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    2019کے لوک سبھا الیکشن میں ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پرجو پانچ مسلمان، پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں،ان میں سے ایک محترمہ اپوروپا پوتدار (آفرین علی)ہیں، جنہوں نے آرام باغ لوک سبھا حلقے سے دوسری مرتبہ جیت حاصل کی ہے۔انہوں نے ایک مسلمان شاکر علی سے شادی کرنے کے وقت  اسلام قبول کرلیا تھا اور ان کا نیا نام آفرین علی رکھا گیا تھا۔وہ ابھی صرف 33 سال کی ہیں۔ان کی جائے پیدائش بنگال کا معروف تاریخی قصبہ چندن نگر (ضلع ہگلی)ہے۔ اپوروپاپوتدار نے محسن کالج،ہگلی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی پیدائش ایک شیڈول کاسٹ خاندان میں ہوئی تھی اور وہ جس سیٹ سے الیکشن لڑتی ہیں، وہ وہ اسی طبقے کے لئے ریزرو ہے،ایسے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے تھا مگر بھاجپا نے الیکشن کمیشن میں ان کی نامزدگی کو خارج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک مسلمان خاتون ہیں لہٰذا شدول کاسٹ گھرانے میں پیدا ہونے کے باجود انھیں اس کا فائدہ اس لئے نہیں مل سکتا کیونکہ اب انھوں نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے۔اپوروپا نے اس کے جواب میں کمیشن سے کہا کہ انھوں نے ’اپنا نام بدلا ہے، مذہب نہیں‘۔اس طرح ان کی نامزدگی بچ گئی۔
وہ مسلمان جو خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا
        اپوروپا پوتدارجیسا ہی معاملہ محمد صدیق کے ساتھ پیش آیا تھا جب وہ ممبراسمبلی چنے گئے تھے اور اب بھی انھیں اس معاملے سے چھٹکارہ نہیں ملا ہے۔ فی الحال وہ کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے ممبر ہیں۔محمد صدیق نے ایک ایسی سیٹ سے لوک سبھا الیکشن جیت کر سب کو حیرت زدہ کردیا تھا جہاں مسلمان ووٹر تقریباً صفر ہیں۔ وہ پنجاب کی فرید کوٹ (ریزور) سیٹ سے جیتے ہیں،جہاں سکھوں کی آبادی تقریباً75فیصد ہے اور مسلمان محض ایک فیصد سے کچھ زیادہ ہیں۔ 77سالہ محمد صدیق پنجابی کے معروف سنگر ہیں۔ اب تک وہ سینکڑوں مقبول گانے گا چکے ہیں اور ان کے درجنوں البم آچکے ہیں۔ ان کے گانے پنجاب کے بچے بچے کی زبان پر ہوتے ہیں۔ تقسیم ملک کے وقت فرید کوٹ کے مسلمان پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور یہاں ایک آدھ بہت ہی کمزور قسم کے خاندان بچ گئے تھے۔ ایسے ہی خاندانوں میں محمد صدیق کا خاندان بھی تھا جومیراثی یا ڈوم ہونے کے سبب گانے بجانے کے پیشے سے وابستہ تھا۔محمد صدیق ان 27مسلمانوں میں سے ایک ہیں جو حالیہ الیکشن میں جیت کر لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ محمد صدیق 2012میں  بھدور(پنجاب) اسمبلی حلقے سے بھی منتخب ہوئے تھے اور 2017تک ایم ایل اے رہے۔بھدور ایک ریزرو حلقہ ہے۔ یہاں سے صرف شڈول کاسٹ کے افراد ہی الیکشن لڑسکتے ہیں لہٰذا محمدصدیق کے منتخب ہونے کے بعد معاملہ کورٹ پہنچا۔ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ایک مسلمان ہیں لہٰذا ریزروسیٹ کا فائدہ انھیں نہیں مل سکتا۔ اسی گراؤنڈ پر پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ نے ان کے انتخاب کومستر د بھی کردیا مگر پھر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو اسٹے کردیا اور وہ پانچ سال تک ایم ایل اے کی حیثیت سے رہے۔اس بار جب انھوں نے فرید کوٹ سے پرچہ نامزدگی داخل کیا تب بھی انھیں پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا اور ان کے ایس ٹی ہونے کے تعلق سے وضاحت طلب کی گئی۔ ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہونے کے بعد بھی ایس ٹی اسٹیٹس لینے کے تعلق سے محمد صدیق کو ایک طویل لڑائی لڑنی پڑی ہے۔ بعض اخبارات کے مطابق انھوں نے کورٹ کے سامنے خود کو سکھ بتاکر بھی اپنی سیاسی پوزیشن کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ وہ اپنے روز مرہ کی زندگی میں اب بھی اسلامی طریقوں پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی چھ بیٹیاں ہیں اور سب کی شادیاں مسلم لڑکوں سے ہی ہوئی ہیں۔ کورٹ میں یہ بحث بھی چلی کہ انسان اپنا مذہب تبدیل کرسکتا ہے مگر ذات نہیں۔
آزاد بھارت کی سب سے بڑی ناانصافی
    محمد صدیق اور اپوروپاپوتدار ان ناانصافیوں کی مثالیں ہیں جو آزاد بھارت میں مذہب کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ ہوئی ہیں۔ ایک طرف تو کہاگیا کہ ملک کا آئین کسی بھی شہری سے مذہب کی بنیاد پرناانصافی نہیں کرتا اور دوسری طرف قدم قدم پر ایسی مثالیں سامنے آئیں۔ ایسے کئی دوسرے معاملے بھی روشنی میں آچکے ہیں جب ایس سی کے لئے ریزرو سیٹ سے کسی مسلمان نے الیکشن لڑنے کے لئے پرچہ داخل کیا تو اس کا پرچہ محض اس بنیاد پر خارج کردیا گیا کہ وہ مسلمان ہے۔ دہلی کی سیماپوری اسمبلی سیٹ سے محمد عیسی حواری نے چند سال قبل پرچہ داخل کیا تھا اور خود کو مسلمان بتایا تھا لہٰذا ان کا پرچہ خارج کردیا گیا۔دھوبی طبقے سے تعلق رکھنے والے محمد عیسیٰ کی نامزدگی اس لئے سرخیوں میں آئی کہ وہ گدہے پر سوار ہوکر پرچہ داخل کرنے گئے تھے۔ ادھر گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں نارتھ ویسٹ دہلی کی ریزرو سیٹ سے جب بی جے پی کے ٹکٹ پر معروف سنگر ہنس راج ہنس نے امیدواری کا پرچہ بھرا تو عام آدمی پارٹی نے الیکشن کمیشن میں شکایت کی کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں لہٰذا وہ ریزرو سیٹ سے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ یہ شکایت محض ایک افواہ کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ پچھلے دنوں ایک افواہ پھیل گئی تھی کہ ہنس نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران اسلام قبول کرلیاہے۔ حالانکہ ہنس نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پورے ملک میں لوک سبھا، اسمبلی اور کارپوریشن کی ایسی سینکڑوں سیٹیں ہیں جہاں مسلمان اس پوزیشن میں ہیں کہ جیت حاصل کرسکیں مگر انھیں ایس سی وایس ٹی کے لئے ریزرو کرکے مسلمانوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا ہے۔ قانون ساز اداروں میں مسلم نمائندگی کی کمی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے۔ 
 ناانصافی کی بنیاد دفعہ 341
    اوپر کی سطور میں ہم نے جس ناانصافی کا ذکر کیا وہ صرف قانون ساز اداروں تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک بھر میں ہر سطح پر جاری ہے۔ بھارت میں ایسے قوانین موجود ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کی اجازت دیتے ہیں اوراسی کا فطری نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق نہ تو سرکاری نوکری ملتی ہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ واسمبلی میں جاپاتے ہیں۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان تعلیمی میدان میں پچھڑے ہوئے ہیں جس کے سبب وہ مقابلہ جاتی امتحانات میں پیچھے رہ جاتے ہیں مگر اسی کے ساتھ دوسری سچائی یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ قانون بھی ناانصافی کرتا ہے اور ایسا ہی ایک قانون ہے دفعہ 341۔جو محمدصدیق اور اپوروپاپوتدار جیسے مسلمانوں کو اپنی ممبرشپ بچانے کے لئے جو خود کو غیرمسلم بتانا پڑ رہا ہے،اس کے لئے ذمہ دار صرف اور صرف یہی دفعہ ہے۔سابق ممبرپارلیمنٹ اور پٹنہ کے معروف سرجن ڈاکٹر ایم اعجاز علی ایک طویل مدت سے اس دفعہ میں ترمیم کے لئے تحریک چلا رہے ہیں مگر اب تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ 
دفعہ341 کیا ہے؟
     دفعہ 341 کیا ہے اور اس کے نقصانات کس طرح مسلمانوں کو اٹھانے پڑے اس بات سے اکثر مسلمان ناواقف ہیں۔ اصل میں یہ قانون انگریزی عہد حکومت میں بناتھا اور چونکہ برٹش عہد کا قانون ہی ہمارے ملک میں آج بھی تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ چلتا ہے لہٰذا اس قانون کو بھی باقی رکھا گیا۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ذات پات کے سسٹم کے سبب ملک کا ایک طبقہ انتہائی پسماندہ رہ گیا جسے شڈول کاسٹ اور شڈول ٹرائب کہا جاتا ہے اس کے لئے سرکار کچھ خصوصی بندوبست کرے گی۔اس خصوصی انتظام کے تحت اس کے لئے ریزرویشن کی سہولت رکھی گئی یعنی تعلیمی اداروں سے لے کر سرکاری ملازمت اور قانون ساز اداروں میں بھی یہ ریزرویشن رکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ انصاف کا تقاضہ تھا اور ملک کے عوام کا ایک بڑا طبقہ جو عہد قدیم سے بھید بھاؤ کا شکار رہا اسے انصاف دینے کی یہ ایک پہل تھی۔ اس قانون میں مذہب کی کوئی قید نہ تھی اور شیڈول کاسٹ و شڈول ٹرائب کا خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق ہو اسے یہ سہولت دی گئی تھی۔ اس کے تحت اسمبلی اور پارلیمنٹ کی سیٹیں بھی ریزرو کی گئی تھیں جو آج تک ریزرو ہیں۔اس بندوبست کے تحت ساڑھے بائیس فیصد ریزرویشن ملک کے انتہائی پسماندہ ایس سی، ایس ٹی کے لئے رکھا گیا ہے۔ یہ سرکاری ملازمتوں، تعلیمی اداروں سے لے کر پارلیمنٹ اور اسمبلی نیز میونسپلٹی،کارپوریشن اور پنچایت تک میں جاری ہے۔
مسلم دشمنی کا کھیل
    ملک آزاد ہو ا اور اقتدار کانگریس کے ہاتھ میں آیا تو اس نے اس میں ایک ترمیم کرکے بہت خاموشی کے ساتھ مذہبی قید لگادیا۔ اس نے اس قانون میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش نہیں کیا بلکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک بدلاؤ کردیا جس کی بیشتر لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ترمیم کے تحت جو شخص ہندو ہوگا وہی ایس سی،ایس ٹی سے مانا جائیگا۔ گویا غیر ہندو کو یہ سہولیات نہیں ملیں گی۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ایک حجام، دھوبی، خانہ بدوش، چمڑے کا کام کرنے والا، گندگی صاف کرنے والا اور اسی قسم کے ذلیل پیشوں سے وابستہ افراد اگر ہندو ہونگے تو انھیں یہ سہولیات دی جائینگی اور وہ مسلمان ہونگے تو انھیں نہیں ملیں گی۔ اس ترمیم میں پہلے سبھی غیر ہندووں کو الگ کیا گیا تھا مگر پھر بدلاؤ کرکے سکھوں اور بودھوں کو شامل کرلیا گیا مگر مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا گیا۔ وہ سیٹیں جو ایس سی اور ایس ٹی کے لئے ریزرو ہوتی ہیں ان پر پہلے دلت اور انتہائی پسماندہ مسلمان الیکشن لڑنے کے اہل تھے مگر اس بدلاؤ کے بعد وہ ناہل قرار پائے۔ایک شخص جب تک ہندو، سکھ یا بودھسٹ ہوتا ہے تب تک وہ ان سیٹوں سے الیکشن لڑسکتا ہے، اس کے تحت دیگر سہولیات کا حقدار ہوسکتا ہے مگر اسلام سے اس کا تعلق ثابت ہوتے ہی وہ ان کے لئے نا اہل قرار پاتا ہے۔ چونکہ عہد وسطیٰ میں بھارت کے دلتوں نے ہی سب سے زیادہ اسلام قبول کیا تھا لہٰذا آج بھی ان کے اندر اسی طبقے کے لوگ زیادہ ہیں۔ یہ سبھی لوگ ریزرویشن کی سہولت سے محروم کردیئے گئے۔ ملک کا قانون کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا مگر آئین کی دفعہ  341 کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کی اجازت ملی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور سے جاری ہے۔شاید اس ترمیم کے پیچھے یہ خوف بھی تھا کہ بھارت کے دلت کہیں اسلام نہ قبول کرلیں۔ اگر دفعہ 341میں مذہبی قید نہ ہوتی تو آج زیادہ مسلمان پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبر ہوتے،زیادہ مسلمان، سول سروسیز میں آتے، وہ تمام سہولیات اکثر مسلمانوں کو ملتیں جو آج دلتوں کو مل رہی ہیں۔(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا