English   /   Kannada   /   Nawayathi

کلکتہ پولس کمشنر راجیو کمار کیا حالات کے شکار ہوجائینگے؟

share with us

ان کا شمار اچھے اور ایماندار افسروں میں ہوتا ہے

عبدالعزیز

مسٹر راجیو کمار کا آبائی وطن مراد آباد ہے۔ 1967ء میں ان کا خاندان مراد سے ضلع سنبھل کے چندوسی منتقل ہوگیا۔ ان کے والد آنند کمار گپتا کو ایس ایم انٹر کالج میں ملازمت مل گئی۔ ان کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ بڑا بھائی شرت کمار بھی آئی پی ایس افسر ہیں جو سورت میں تعینات ہیں۔ ایک بہن ڈاکٹر ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ میں رہتی ہے۔ 
راجیو کمار رُرکی جو اب آئی آئی ٹی ررکی (IIT Roorke) کے نام سے مشہور ہے وہاں سے کمپوٹر میں گریجویشن کیا ہے۔ اتر پردیش سے 1989ء کے بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں۔ راجیو کمار پہلے بیربھوم کے ایس پی تھے۔ انفورسمنٹ برانچ اسپیشل ایس پی، ڈپٹی کمشنر کلکتہ، ڈپٹی انسپکٹر جنرل (سی آئی ڈی) بھی ہوئے۔ ایک پولس افسر کے مطابق ٹی ایم سی حکومت جب ماؤ نوازوں (Maoists) کے خلاف کڑے قدم اٹھانا چاہتی تھی تو انھوں نے ہی اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا تھا۔ راجیو کمار نے ہی چھتر دھر مہتو کو جو ماؤ نواز کے بڑے لیڈر تھے کی گرفتاری کی تھی۔ دوسرے ماؤ نواز لیڈروں کو بھی راجیو کمار نے گرفتار کیا تھا۔ نقلی کرنسی کے ریکٹ کا پردہ بھی انھوں نے ہی فاش کیا تھا ۔ 
کلکتہ پولس کمشنر بننے سے پہلے راجیو کمار بدھان نگر کے پولس کمشنر تھے۔ اسی وقت ان کو ایس آئی ٹی (Special Investating Agency) کا کام سونپاگیا تھا۔ روز ویلی اسکام اور شاردا چٹ فنڈ اسکام کا تفتیشی کام ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ ان کی سرکردگی میں پولس افسروں کی ٹیم نے دو بڑے گھپلے کی تفتیش کے کام کو سچائی سے نہیں کیا بلکہ مجرموں کے ساتھ جانبداری برتی اور ان کے جرائم کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔ 
راجیو کمار پر سی بی آئی یا بی جے پی کے یہ الزامات برسوں سے میڈیا میں گشت کر رہے ہیں مگر اس وقت جبکہ جنرل الیکشن قریب ہے سی بی آئی نے ایک اچھے اور قابل پولس افسر کو محض اس لئے نشانہ بنایا کہ حکومت مغربی بنگال کو بدنام کیا جائے اور ممتا حکومت کو گرانے کی راہ ہموار کی جائے۔ بھاجپا کے کئی ریاستی لیڈروں نے یہ مطالبہ بھی کر ڈالا کہ مغربی بنگال میں صدر راج نافذ ہونا چاہئے۔ 
راجیو کمار کو ممتا بنرجی نے اچھے اور ایماندار افسروں میں شمار کرنے کی بات کی ہے۔ مجھے راجیو کمار سے تین بار سماجی کام کے سلسلے میں ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ مارکسی حکومت کے زمانے میں وہ مرکزی کلکتہ کے ڈپٹی پولس کمشنر (ڈی سی) تھے۔ سنٹرل ڈی سی کا دفتر چاندنی سے قریب واقع ہے۔ چاندنی مارکیٹ میں دو بھائیوں کی دکان ہے جسے ان کی ماں نے باپ کے انتقال کے بعد چلانے کیلئے دیا تھا۔ اسی مارکیٹ کے اندر ان کا ایک بیٹا پارٹی کیڈرس کے ساتھ سیاسی کاموں میں لگا رہتا تھا۔ اس نے اپنے سیاسی دوستوں کی مدد سے دکان پر قبضہ کرلیا۔ دونوں بھائیوں نے مجھ سے اپروچ کیا تو میں ان کی ماں اور ان کے سب سے بڑے بھائی کے ساتھ ڈی سی راجیو کمار کے پاس گیا۔ انھوں نے پوری بات غور سے سنی اور فوراً مقامی تھانہ کے افسر کو فون کیا کہ ایسے لوگ جارہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کریں۔ پولس افسر نے تعاون کیا اور حقدار کو اسی روز دکان مل گئی۔ کلکتہ میں ایسا بہت کم ہوتا تھا یا ہوتا ہے۔ چاندنی مارکیٹ میں لوگ مجھ سے متعارف تھے۔ کچھ لوگ میرے پاس آئے۔ وہ واقعہ کو جانتے تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ سنٹرل ڈی سی کے بروقت کارروائی سے ایسا ہوا تو وہ تعجب کرنے لگے کہ ایسے مستعد افسر بھی کلکتہ میں ہیں۔ 
راجیو کمار جب کلکتہ پولس کمشنر ہوئے تو اس کے چند ماہ بعد مٹیا برج کے قریب میرے ایک آشنا کے ورک شوپ (کارخانہ) جو تین بیگھہ میں تھا اسے سیاسی شرپسند عناصر نے علاقہ کے بڑے سیاسی لیڈر کے اشارے پر قبضہ کرلیا۔ کارخانہ کے مالک مقامی تھانہ کے افسر اور پورٹ ڈی سی سے مل کر مسئلہ کو حل کرنا چاہا۔ انھوں نے مجھ سے جب کہا تو میں نے پولس کمشنر راجیو کمار کو موبائل پر Message کیا کہ ہم چند افراد کے ساتھ آپ سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔دو ایک روز میں ملاقات ہوجائے تو بہتر ہوگا۔ ایک مسئلہ درپیش ہے۔ ان کے پرائیوٹ سکریٹری کا تین چار گھنٹے بعد فون آیا کہ کل 3بجے دن میں پولس کمشنر نے ملاقات کا وقت دیا ہے۔ پولس کمشنر سے نصف گھنٹہ سے زیادہ بات چیت ہوئی۔ معاملہ کو انھوں نے سمجھا اورکاغذات دیکھے۔ قبضہ کی بات معلوم کی ۔ ان کو بتایا گیا کہ کارخانہ میں لگ بھگ پانچ کروڑ کی چیزیں بھی ہیں اس کے باوجود زور زبردستی شرپسند عناصر نے کارخانہ میں تالا لگادیا۔ راجیو کمار نے کہاکہ اگر قبضہ تھا یہ بہت غیر قانونی عمل ہوا ہے۔ پھر انھوں نے کہاکہ کل مقامی ڈی سی سے ملاقات کیجئے۔ میں ان سے آج ہی بات کرلیتا ہوں۔ مقامی ڈی سی بھی مقامی لیڈر کی وجہ سے لاچار تھا۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے ملاقات کی گئی۔ انھوں نے مقامی لیڈر سے رجوع کرنے کیلئے کہا۔ آج تک وہ کام مقامی لیڈر کی وجہ سے نہیں ہوا مگر مسٹر راجیو کمار نے کام کرنا چاہا تھا اور مستعدی سے چاہا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ کام نہیں ہوا۔ 
ملاقات کے وقت مجھے یاد ہے کہ دورانِ گفتگو ایک عالم دین جو میرے ساتھ تھے نے ایک معاملہ میں بات کرتے ہوئے کہاکہ اس میں Risk (خطرہ) ہے۔ مسٹر راجیو کمار نے کہاکہ Risk تو سانس لینے میں بھی ہے مگر سانس لینا ہی پڑتا ہے۔ جو سانس جاتی ہے وہ واپس آئے گی کہ نہیں مگر کون ہے جو اس خطرہ کو مول نہیں لیتا۔ مسٹر راجیو کمار سے ایک اور ملاقات ہوئی تھی جب وہ ڈی سی تھے۔ ان تین ملاقاتوں میں میں نے دیکھا کہ ان کے اندر ایک پولس افسر کی قابل لحاظ صلاحیت ہے اور وہ عوام کا کام بغیر کسی تاخیر کے کرنا چاہتے ہیں۔ آج جب ان پر آفت آئی ہے تو افسوس ہوتا ہے۔ ان کو تفتیشی کام سونپا گیا تھا، ظاہر ہے وہ حکومت کی ماتحتی میں کام کر رہے تھے۔ ان کیلئے کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ممکن ہے وہ حسب توقع کام نہ کرسکے ہوں مگر اس وقت جس طرح بھاجپا، سی بی آئی اور مرکزی حکومت کا ان پر حملہ ہورہا ہے وہ افسوسناک ہے۔ ان کے گھر پر تیس چالیس افراد کا سی بی آئی کے ڈپٹی ڈائرکٹر کی سرکردگی میں اچانک بغیر اطلاع اور وارنٹ کے پہنچ جانا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا ہے۔ وہ ایک بڑے شہر کے کمشنر ہیں۔ وہ بھاگ نہیں سکتے ہیں پھر انھیں حیران کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ان کے پاس بھی تو لاؤ لشکر ہے۔ ان سب کو نظر انداز کرکے سی بی آئی کا چھاپہ الوک ورما کے دفتر پر آدھی رات کے چھاپے کی یاد دلاتا ہے۔ محترمہ ممتا بنرجی راجیو کمار کے ساتھ یقیناًکھڑی ہیں مگر سی بی آئی جو حکومت کے پنجرے کی طوطا ہے یا کٹھ پتلی ہے۔ اس سے انصاف کی توقع مشکل ہے۔ وزیر داخلہ بھی جو راجیو کمار کو ایک آئی پی ایس افسر کے ناطے آئی پی ایس سیکشن کے ذریعہ بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ سب وہ مشکلات ہیں جن سے راجیو کمار کو گزرنا پڑسکتا ہے مگر سپریم کورٹ کی مدد سے ان مشکلات پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
09؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا